الفضل اس اشتعال انگیزی پر مزید تیل چھڑکتا ہے: ’’ان حوالوں سے آپ کو معلوم ہوگیا کہ آج ایک احمدی کو کیا کرنا ہے۔ اس کو یہی کرنا ہے کہ وہ صحابہ کرام کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرے۔ (صحابہ کرام سے مراد مرزاغلام احمد قادیانی کے صحابہ ہیں، جیسا کہ الفضل خود ہی وضاحت کرتا ہے) جس طرح حضرت صاحبزادہ عبداللطیف (اس نام پر الفضل نے حسب معمول ’’رضی اﷲ‘‘ لکھا ہے) نے پیش کیا اور حقیقت یہ ہے کہ صاحبزادہ صاحب نے جو نمونہ پیش کیا یہ ایک مثال سہی تاہم فی الحقیقت ہزاروں احمدیوں نے یہ نمونہ پیش کیا ہے اور کون احمدی ہے جو خود یہ نمونہ پیش کرنے کے لئے تیار نہیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۷؍جون۱۹۶۴ئ، ص۱،۸) قادیانی اخبارات کی یہ کھلی دھمکی حکومت اور اسلامیان پاکستان دونوں کے لئے یکساں غور کی مستحق ہے اور انہیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایک ایسی قوم جو دینی اساسات میں اس ملک کی حکومت اور باشندوں سے یکسر مختلف ہے۔ جس قوم کے نزدیک اس ملک ہی کے نہیں پوری دنیا کے مسلمان، اس لئے کافر ہیں کہ وہ مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی وقت تسلیم نہیں کرتے۔ ان مسلمانوں کی نماز جنازہ اس کے نزدیک اسی طرح حرام ہے۔ جس طرح وہ سکھوں، ہندوؤں، عیسائیوں اور یہودیوں کا جنازہ حرام سمجھتے ہیں۔ اگر اس کے کسی اشتعال انگیز رسالے کو باشندگان ملک کی اکثریت کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ضبط کر لیا جائے تو یہ قوم کھلم کھلا اپنے افراد کو موت پر ابھارے۔ اس کے اخبارات حکومت کے فیصلے کو احمقانہ قرار دینے کے بعد اس کے خلاف اپنے افراد کو زندگی ہار کر جنت خریدنے کی علانیہ تلقین کرے تو کیا اس کے احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیکنے مناسب ہوں گے یا اس کی اشتعال انگیزیوں کا سدباب ضروری ہوگا۔
ایک غلطی کا ازالہ… انتہائی اشتعال انگیز پمفلٹ
یہاں تک ہم نے جو گفتگو کی ہے۔ وہ حکومت کے اقدام اور قادیانیوں کے ردعمل کے موضوع پر کی ہے اور ہم نے عمداً اس بحث میں ان محرکات اور جذبات کا حوالہ نہیں دیا جو دینی نقطہ نظر سے اساسی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن بحث کا یہ حصہ چونکہ مسئلے کی حقیقی بنیاد ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اجمالاً ہی سہی اس پر بھی گفتگو کی جائے۔
اگرچہ قادیانی اخبارات نے وضاحت کے ساتھ ضبط شدہ پمفلٹ کے اقتباسات دئیے ہیں۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ ایسا کرنا صریح طور پر قانون شکنی ہے۔ اس لئے ہم اس سے اجتناب کرتے ہیں کہ اس پمفلٹ کی عبارتیں پیش کریں۔ البتہ اس کے سوا چارہ نہیں کہ مدعا