ان کو کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس کی عزت کی وجہ سے ان پر اعتراض کرنے والے ٹھوکر سے بچ نہیں سکتے۔‘‘ (مورخہ ۸؍جون ۱۹۲۶ء الفضل)
’’وہ مجھ پر سچا اعتراض کرنے والا خدا کی لعنت سے نہیں بچ سکتا اور خداتعالیٰ اسے تباہ وبرباد کر دے گا۔‘‘ (مورخہ ۲۹؍مئی ۱۹۲۸ء الفضل)
مقننہ یعنی مجلس شورٰی
مقننہ کو خلیفۂ ربوہ کے نظام میں مجلس مشاورت کہا جاتا ہے۔ یہ بھی دیگر محکموں کی طرح کلیتہً خلیفہ کے ماتحت ہوتی ہے۔ اس مجلس کے فیصلہ جات اس وقت تک جاری نہیں ہوتے جب تک خلیفہ منظوری نہ دے دے اور وہ ’’صدر انجمن احمدیہ‘‘ کے لئے واجب التعمیل نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ اپنی ریاست کے ہر محکمہ پر خلیفہ صاحب خود نگرانی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا قول ملاحظہ فرماویں۔
’’تمام محکموں پر خلیفہ صاحب کی نگرانی ہے۔‘‘ (مورخہ ۱۵؍نومبر ۱۹۳۰ء الفضل) ’’اسے یہ حق ہے (یعنی خلیفہ کو) کہ جب چاہے جس امر میں چاہے مشورہ طلب کرے۔ لیکن اسے یہ بھی حق حاصل ہے کہ مشورہ لے کر رد کر دے۔‘‘
(مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۳۷ء الفضل)
خلیفہ کا مجلس شورٰی پر کلی اختیار
مجلس مشاورت کے ممبروں کی کوئی تعداد مقرر نہیں۔ اس میں دو قسم کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ ایک وہ نمائندے جن کو جماعتیں منتخب کرتی ہیں۔ لیکن ان کی منظوری بھی خلیفہ صاحب ہی دیتے ہیں۔ خلیفہ صاحب کو یہ پورا حق حاصل ہے کہ وہ جماعتوں کے چنے ہوئے نمائندے میں جن کو خلیفہ صاحب مجلس مشاورت کا ممبر بنا سکتا ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس نمائندہ پر کوئی اعتراض کر سکے۔ مجلس مشاورت کے اجلاس میں کوئی شخص بھی خلیفہ کی اجازت کے بغیر تقریر نہیں کر سکتا اور نہ وہ بغیر منظوری حاصل کئے مجلس سے باہر جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں خلیفہ قادیان کا ارشاد گرامی ملاحظہ ہو۔
’’پارلیمنٹوں میں تو وزراء کو وہ جھاڑیں پڑتی ہیں۔ جن کی حد نہیں… یہاں تو میں روکنے والا ہوں… گالی گلوچ کو سپیکر روکتا ہے۔ سخت تنقید کو نہیں۔‘‘
(مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۳۸ء الفضل)