کی بناء پر یہ حق دینا گوارا کر لیا جائے گا کہ وہ محمدﷺ (فداہ روحی ونفسی وابی وامی) کی امت میں اپنے اس کفر کو پھیلا سکیں؟
رب غیور کی قسم! نہ اس کا کوئی جواز ہے اور نہ اسے غیرت ایمانی کبھی گوارا کر سکتی ہے۔ خواہ اس پر بین الاقوامی سطح کی بیسیوں کانفرنسوں کا دباؤ اور ہزاروں کافرانہ تصورات ومعتقدات کی چھاپ ہی کیوں نہ لگی ہو۔ حضور کی امت کے ایک پستہ قد، کم عقل اور محروم وسائل فرد کے ایمان کی حفاظت کفار عالم کے تصرف میں ہزاروں بین الاقوامی اداروں کے فیصلوں سے زیادہ اہم ہے اور ایک مسلمان فرد اور مسلمان حکومت ایسے بے حیثیت مسلمان کے ایمان کی حفاظت سے غفلت کے ارتکاب کے بعد حضورﷺ کی شفاعت کی امید نہیں کر سکتی۔
دشمن انبیاء جماعت
توہین مسیح ابن مریم علیہ السلام
مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کے ماننے والوں کو کافر اور خارج ازاسلام قرار دئیے جانے کی ساتویں وجہ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے متعدد انبیاء بالخصوص سیدنا مسیح ابن مریم علیہ السلام کو ایسے افعال کا مرتکب بتایا اور ایسے فواحش ان کی جانب منسوب کئے۔ جنہیں اوباش وبدقماش انسان بھی اپنی جانب منسوب کرنا گوارا نہیں کرتے اور اس سے مقصود مرزاغلام احمد قادیانی کا اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ چونکہ مسیح موعود بننا چاہتے تھے اور اس کا راستہ انہوں نے یہ منتخب کیا تھا کہ اوّلا اپنے آپ کو صرف مثیل مسیح کہا اور یہ بھی کہا کہ لوگو! میرے اس دعویٰ سے گھبراؤ مت، مثیل مسیح کی کچھ ایسی اہمیت نہیں ہے۔ مثیل مسیح تو ’’میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار بھی مثیل مسیح آجائیں۔ ہاں اس زمانہ کے لئے میں مثیل مسیح ہوں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۹۹، خزائن ج۳ ص۱۹۷)
اس سے مرزاغلام احمد قادیانی کا مقصد تو یہ تھا کہ جب مثیل مسیح کا منصب اتنا عام ہے کہ دس ہزار افراد بھی اس عہدے پر فائز ہو سکتے ہیں تو مرزاغلام احمد قادیانی پر کچھ زیادہ لے دے نہ کی جائے اور اس منصب کو اہمیت نہ دیتے ہوئے مرزاغلام احمد قادیانی کے بعض شدید نفسیاتی معائب کے باوجود انہیں مثیل مسیح مان لیا جائے۔ لیکن باوجود بہت سی کمزوریوں کے مسلمانوں میں ہنوز دینی روح زندہ تھی اور وہ منصب نبوت کی عظمت وپاکیزگی کے اس حد تک معتقد تھے کہ اگر کوئی