بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
حالات مرزاغلام احمد قادیانی
مرزاغلام احمد بن غلام مرتضیٰ قصبہ قادیان ضلع گورداسپور میں ۱۸۴۰ء میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں کا نام چراغ بی بی تھا۔ غلام مرتضیٰ کے افلاس کی یہ حالت تھی کہ مرزاغلام احمد قادیانی غریبی سے تنگ آکر دھرم کوٹ واقع کشمیر میں تلاش معاش کو گیا۔ وہاں جمعدار محمد بخش ککے زئی کے ہاں اس کے دو لڑکوں پیر بخش اور امیر بخش کو پرائیویٹ تعلیم دینے پر نوکر ہوگیا۔ تنخواہ مبلغ پانچ روپیہ معہ خوراک مقرر ہوئی۔ لیکن شومئے قسمت سے یہ روزینہ بھی قائم نہ رہا اور بیچارہ بیک بینی ودوگوش وہاں سے واپس قادیان آیا جہاں اس نے ایک معمولی سی طبابت کی دوکان کھولی۔ اس قدر بے بضاعتی کی وجہ سے مرزا(قادیانی) علم سے محروم رہا اور سیالکوٹ کی کچہری میں پیٹ پالنے کے لئے پندرہ روپے ماہوار پر محرر مقرر ہوا۔ موجود معاش کو ناکافی سمجھ کر مختاری کے امتحان میں داخل ہوا۔ لیکن ناکامیاب ہوا۔ چونکہ سرسید احمد نیچری کی تفسیر اور سابقہ کاذب مہدیوں کے حالات اس کے پیش نظر تھے۔ اس کے دماغ میں بھی وہی سمایا جو ان کے دماغ میں سمایا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ مرزاقادیانی کے کثرت الہامات کا باعث اس کی دماغی بیماری تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس کے الہامات پڑھ کر بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔ صحیح دماغ شخص ایسی بے تکی باتیں نہیں کہہ سکتا۔ یوں تو کاذب مدعیان نبوت بہت ہوچکے ہیں اور ابھی ہوتے رہیں گے۔ لیکن مرزاقادیانی نے خارجیت اور دہریت کو نرالے ڈھنگ میں زندہ کیا ہے اور یہ بات کہ مرزاقادیانی نے کاذب مہدیوں اور دیگرمذاہب کا مطالعہ کیا۔ وہ خود اپنی تصنیف (براہین احمدیہ کے ص۹۵، خزائن ج۱ ص۸۵) پر اس طرح رقم طراز ہے۔
بہر مذہبے غور کردم بسے
شنیدم بدل حجت ہر کسے
بخواندم زہر ملتے دفترے
بدیدم زہر قوم دانشورے
ہم از کود کے سوئے ایں تاختم
دریں شغل خودرا بیندا ختم
جوانی ہمہ اندریں باختم
دل از غیر ایں کار پردا ختم
مرزاقادیانی نے جہاں اپنی عظمت کا سکہ بٹھانا چاہا ہے۔ وہاں اس کا نصب العین اہل بیت محمدؐ کے فضائل کو لوگوں کے دلوں سے محو کرنا تھا۔ تاہم مرزاقادیانی نے اس پوشیدہ حالت کو ظاہری اور عملی جامہ پہنا دیا ہے۔