قادیان میں ہوا۔ (حاضرین نے شہادت دی کہ بے شک) نتیجہ کیا ہوا۔ مرزائی کیا جواب دیتے ہیں۔ مرزاقادیانی باربار فرماتے ہیں کہ جہاں ایک بھی راست باز ہوگا خدا اس کو بچا لے گا۔ اب بتاؤ کہ جب اس کی موجودگی میں طاعون قادیان میں آیا تو وہ کیا ہوا اور کہاکہ لوگوں کو کیا ہوا کہ وہ ان کو مسیح موعود لکھتے ہیں کہ مجھ کو مسیح موعود کہنا بے وقوفوں کا کام ہے۔
(ازالہ اوہام ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲)
اور سنو! خود مرزاقادیانی نے ایک اشتہار بعنوان ’’مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ شائع کیا۔ جس میں لکھا کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جاوے گا۔ سب نے دیکھ لیا کہ کون مر گیا اور خدا نے کس کو زندہ رکھا ہے۔ مگر اس وقت ایک اور بات بتانے والی یہ ہے کہ اس اشتہار کے نیچے آپ اپنا نام اس طرح لکھتے ہیں کہ: ’’عبداﷲ الصمد غلام احمد مسیح موعود‘‘
لوگ مرزاقادیانی کو مسیح موعود سمجھیں تو وہ ان کی تحریر کے مطابق بے وقوف ٹھہریں گے۔ لیکن اگر مرزاقادیانی خود اپنے آپ کو مسیح موعود لکھیں تو اپنی تحریر کے مطابق وہ کیا ہوئے؟ ناظرین سب باتوں کا خود فیصلہ کر لیں۔
تقریر مولوی قاری محمد طیب دیوبندیؒ
حمد وصلوٰۃ کے بعد فرمایا: حضرات! میں آپ کے سامنے ایک معمار کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہوں اور ایمان کا قلعہ بنانا چاہتا ہوں۔ اسلام نے ایمانی قلعہ کی بنیاد ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ سے شروع کی ہے۔ جب اسلام دنیا میں آیا۔ اس وقت ظلمت کفر کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس وقت فاران کی چوٹیوں پر سے ایک آفتاب نبوت روشن ہوا اور کہا: ’’تعالوا الیٰ کلمۃ سواء بیننا وبینکم‘‘ جب حضورﷺ کی ذات مبعوث ہوئی تو خدا کو تو لوگ خالق مانتے ہی تھے۔ مگر شرک فی العبادت کیا کرتے تھے۔ کیونکہ جب ان سے کہا جاتا کہ زمین وآسمان کے پیدا کرنے والا کون ہے؟ تو کہتے۔ خدا۔ لہٰذا آپ نے سب سے پہلے شرک فی العبادت کو دور کرنے کی کوشش کی۔ ایمان کی دیواریں مضبوط بنائیں۔ نماز کو اس کے ستون بنایا اور ’’ایاک نعبدو ایاک نستعین‘‘ کی تعلیم دی۔ اسی طرح ہم کو پہلے ایمان کی بنیاد مضبوط کرنی چاہئے۔ پھر نماز کے ستون قائم کریں۔ پھر زکوٰۃ کی دیواریں بنا کر حج کی چھت ڈالیں اور اس قلعہ میں رہیں۔ یہ وہ قلعہ ہے جس کو کوئی آندھی، کوئی زلزلہ، کوئی طوفان گرا نہیں سکتا۔ اس پر آپ نے ایک مبسوط اور عمدہ تقریر کی۔