ویقین ہے۔ مولوی صاحب کا کسی فریق سے تعلق نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک مضمون میں خود انہوں نے لکھا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان کی تحریر کو غالب ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ حالانکہ مرزاقادیانی کے مریدوں کی تحریر میں ان کے حسن اعتقاد پر لکھی گئی ہیں اور مولوی صاحب نے لاہور کے واقعات کو اپنی آنکھ سے دیکھا اور کانوں سے سنا اور ان پر انصاف کا خون ہوتے دیکھ کر قلم اٹھائی۔ کیونکہ ابتداء زمانۂ بحث سے لے کر آج تک جیسا کہ صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کا قاعدہ ہے۔ حضرت پیر صاحبؒ ممدوح کی زبان سے کوئی لفظ سخت صریحاً تو کیا اشارتاً وکنایتاً بھی بحق مرزاقادیانی نہیں نکلا۔ جو بناوٹی کاروائیاں اور گالیاں وغیرہ مرزاقادیانی اور ان کے مریدوں کی زبانون اور قلموں سے نکلیں وہ ان کے مشن پر ایک سخت بدنما دھبہ ہے اور یہ واقعہ جس کو ایک عظیم الشان پیشین گوئی کا پورا ہونا کہا جاتا ہے۔ مرزائیوں کے حق میں ایسی بھاری شکست ہے کہ قیامت تک ان کے دامن سے نہیں مٹ سکتی۔ اب ہم اس خط وکتابت کو شروع کرتے ہیں اور فیصلہ ناظرین کے انصاف پر چھوڑتے ہیں۔
مرزاقادیانی وحضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ
(۱۵؍اکتوبر ۱۹۰۰ئ، اخبار چودھویں صدی لاہور)
بہت شور پہلو میں سنتے تھے دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا
ان دنوں مندرجہ بالا عنوان دونوں بزرگوں کی بابت بہت سے اشتہارات قسما قسم کے نکلتے ہیں اور نامہ نگار ان اہل الرائے نے ملکی اخبارات میں بہت کچھ اس بارہ میں رقم کیا ہے۔ ہم نے بھی چپکے سے سب کچھ دیکھا اور سنا ۔ کہئے دونوں مذکورہ بالا بزرگوں میں سے نہ ہم کسی کے مرید ہیں نہ کسی کے طرفدار، کہ ہم اس بارہ میں کچھ لکھنے کی کوشش کرتے۔ اب دوستوں کے مجبور کرنے پر چند کلمات جو ہمارے نزدیک راست راست ہیں۔ بطور رائے پبلک کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
مرزاقادیانی کی ابتدائی مالی حالت جو سنی جاتی تھی اور جس افلاس میں وہ جکڑے جارہے تھے۔ وہ اکثر احباب اہل علم پر پوشیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے اس حالت میں جو پولیٹکل چال اپنی بہتری وبہبودی کی سوچی تھی اور جس قسم کی پٹڑیاں جمائی تھیں۔ اہل دل بزرگان اہل اسلام تو اسی زمانہ میں رائے لگا چکے تھے ؎
اب تو فتنہ ہے کسی دن کو قیامت ہوگا