احمدیہ قائم کی۔ خلیفہ صاحب کی طرف سے مکمل سوشل بائیکاٹ کیاگیا۔ ہر ممبر کے گھر پہرے لگائے گئے۔ ضروریات زندگی سے محروم کرنے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ فخرالدین ملتانی کے تمام مکان کرایہ داروں سے خالی کروائے گئے۔ حتیٰ کہ شیرخوار بچے کا دودھ تک بند کیا گیا۔ خلیفہ قادیان نے فرمایا: ’’کہ ہم ان سزاؤں سے بڑھ کر سزا اور ایذا دے سکتے ہیں جو بااختیار حکومت دے سکتی ہے۔‘‘ (الفضل ۱۹۳۷ئ)
پھر فرماتے ہیں: ’’ان دنوں ان کی زندگیوں کی ایک ایک گھڑی میرے احسان کے نیچے ہے۔‘‘ (۲۹؍جولائی ۱۹۳۷ء الفضل)
خلیفۂ قادیان کا مریدوں کو ابھارنا اور اس کے نتائج
خلیفہ صاحب نے پھر ایک آخری خطبہ مورخہ ۶؍اگست ۱۹۳۷ء جمعہ کے دن دیا۔ جس میں مذکورہ بالا شخصیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے مریدوں اور جانبازوں کو ابھارا گیا۔ اس کے دوسرے ہی دن پھر بروز ہفتہ مورخہ ۷؍اگست تقریباً ساڑھے چار بجے عصر کے وقت مولانا فخرالدین ملتانی، حکیم عبدالعزیز وحافظ بشیر احمد (پسر شیخ عبدالرحمن) تینوں پولیس پوسٹ کی طرف جارہے تھے۔ پولیس پوسٹ سے کم وبیش سوگز کے فاصلہ پر ایک تیز دھار آلے سے حملہ کر دیا گیا۔ تیز دھار آلہ فخر الدین ملتانی کی پسلی کو چیرتا ہوا پھیپھڑے میں جا نکلا۔ بعد ازاں حکیم عبدالعزیز کو بھی اسی تیز دھار آلہ سے منہ اور گالوں پر شدید ضربات آئیں۔ گورداسپور ہسپتال میں فخرالدین ملتانی مورخہ ۱۳؍اگست ۱۹۳۷ء پانچ بجے وفات پاگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! آپ کی لاش قادیان میں لائی گئی۔ حکیم صاحب موصوف بدستور زیر علاج رہے۔
خلیفہ صاحب کا آخری خطبہ جو جمعہ مورخہ ۱۶؍اگست ۱۹۳۷ء کو دیاگیا تھا۔ وہ اس قدر اشتعال انگیز تھا کہ ڈی۔سی گورداسپور نے حکماً روک دیا تھا۔ جو آج تک شائع نہیں ہوا۔ اپنے مخالفین کے خلاف اپنے مریدوں کو کس طرح ابھارتے ہیں۔ ان کے مزید اقتباس ملاحظہ ہوں۔
’’تم میں سے بعض تقریر کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مر جائیں گے۔ مگر سلسلہ کی ہتک برداشت نہیں کریں گے۔ لیکن جب کوئی ان پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں۔ بھائیو! کچھ روپے ہیں کہ جن سے مقدمہ لڑاجائے۔ کوئی وکیل ہے جو وکالت کرے۔ بھلا ایسے… نے بھی کسی قوم کو فائدہ پہنچایا ہے۔ بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا