تقریر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ؒ
تحمید وتشہد کے بعد مولانا نے فرمایا کہ صاحبان میرے مضمون کا عنوان ہے۔ ’’رفع عیسیٰ علیہ السلام الیٰ السمائ‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اسی جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھایا جانا اور یہ ثابت کرنا ہے کہ بعینہ وہی عیسیٰ علیہ السلام جو پہلے بنی اسرائیل میں رہ کر وعظ کر چکے ہیں۔ وہی پھر نازل ہوںگے۔ ان کا نزول عین ہے۔ بروزی یا ظلی نہیں۔ مرزائی کہتے ہیں کہ تم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سمجھ کر عیسویت کو مدد دیتے ہو۔ ہم ان کو مار کر عیسائیوں کو ان کا نقصان دکھاتے ہیں۔ مگر یہ ایک مغالطہ ہے۔ عیسائی ماننے والے کہتے ہیں کہ وہ سولی پر چڑھ کر ہمارے گناہ کے لئے کفارہ ہوگئے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ مسیح سولی پر چڑھے ہی نہیں تو پھر کفارہ کیسا؟
مرزاقادیانی (چشمہ معرفت ص۲۵۵، خزائن ج۲۳ ص۲۶۶) میں لکھتے ہیں کہ: ’’عسائیوں کی کتابیں قابل استناد نہیں۔‘‘ پھر وہ اثبات مصلوبیت کے لئے اناجیل سے کیوں دلیل پکڑتے ہیں۔ قرآن شریف میں مذکور ہے۔ ’’واذ کففت بنی اسرائیل‘‘ یاد کر عیسیٰ وہ وقت جب دور رکھا میں نے تجھ سے بنی اسرائیل کو وہ کون سا وقت ہے۔ مگر واقعہ صلیب درست ہوتا تو اس طرح آیت نازل نہ ہوتی۔ یاد رکھو قرآن کی بندش بھی ایک معجزہ ہے۔ ’’کففت‘‘ سے ثابت ہے کہ یہود کے ہاتھ بھی مسیح تک نہیں پہنچے۔
وفات مرزا کے ایک دن پہلے میں نے ’’احمدیہ بلڈنگ لاہور‘‘ کے سامنے اسی موضوع پر وعظ کیا تو مولوی نورالدین ومحمد احسن صاحب نے مشورہ کیا۔ اس وقت کا حال لوگوں کو معلوم ہے۔
اس کے بعد عبداﷲ بن عمرؓ کی روایت سے ایک حدیث مشکوۃ کی پڑھی۔ جس میں مذکور ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام زمین پر صرف ۴۵سال رہیں گے۔ نکاح کریں گے۔ ان کی اولاد ہو گی۔ پھر فوت ہوکر میرے پاس میرے مقبرے میں دفن ہوںگے۔ اس حدیث کو مرزاقادیانی نے بھی مانا ہے۔ چنانچہ کہتا ہے: ’’یتزوج‘‘ سے مراد محمدی بیگم کا نکاح ہے اور اس کی اولاد مراد ہے۔ (انجام آتھم ص، خزائن ج ۱۱ ص)
آپ نے دیکھا ہے کہ آنحضرتﷺ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنے پاس دفن ہونا فرماتے ہیں اور مرزاقادیانی مرتے ہیں لاہور میں اور دفن ہوتے ہیں قادیان میں۔ ان حوالہ جات سے ثابت ہے کہ مرزاقادیانی حضرت مسیح نہ تھے۔ ور نہ قادیان دفن نہ ہوتے۔ نیز یہ کہ حضرت عیسیٰ