ہوتا رہا۔ اس بات کے صرف دو پہلو ہو سکتے ہیں۔ اوّل یہ کہ خدا نے فعل عبث کیا۔ دوئم یہ کہ مرزاقادیانی کے دماغ میں فتور تھا۔ چونکہ امر اوّل یقینا نہیں ہوسکتا۔ اس لئے امر دوئم لا محالہ درست ہے۔
نمبر۳ سن لو کہ میں ہر ایک تیر کا مقابلہ ثابت قدمی سے کروں گا اور تیروں سے چھپنے کا تو میں دشمن ہوں۔
ناظرین! مرزاقادیانی مندرجہ ذیل اشعار میں یوں رجز خوانی کرتا ہے۔
وان ناضلتنی فزی سہامی
ومثلی لا یفز من النضال
فان قاتلتنی فاریک انی
مقیم فی میادین القتال
الاانی اقادم کل سہم
وافلی الا کتان عن النبال
ترجمہ: اگر میرے مقابلہ پر آؤ گے تو میرے تیر دیکھ لو گے اور میرے جیسے آدمی مقابلہ سے بھاگا نہیں کرتے۔
سو تم اگر مجھ سے مقابلہ کرو گے تو میں تمہیں دکھا دوں گا کہ میں لڑائی کے میدان میں ڈیرا جمانے والا ہوں۔
مرزاقادیانی کی تہذیب ومتانت
(ازالہ اوہام ص۵۱۰، خزائن ج۳ ص۳۷۳) پر ہے کہ: ’’دابتہ الارض وہ علماء اور واعظین ہیں جو اپنے میں کوئی آسمانی قوت نہیں رکھتے۔ آخری زمانہ میں ان کی کثرت ہوگی۔‘‘
(کتاب نزول المسیح ص۳۸، ۳۹، خزائن ج۱۸ ص۴۱۶) پر ہے کہ: ’’دابتہ الارض سے مراد طاعون کا کیڑا ہے۔‘‘
اور (ص۴۳، خزائن ج۱۸ ص۴۲۱) پر ہے کہ دابتہ الارض سے مراد اس زمانہ کے مولوی اور سجادہ نشین ہیں جو متقی نہیں ہیں اور زمین کی طرف جھکے ہوئے ہیں۔
(ضمیمہ انجام آتھم ص۲۱،۲۳، خزائن ج۱۱ ص۳۰۵تا۳۰۷) پر ہے کہ: ’’اے مردار خوار مولویو! اور گندی روحو! انصاف اور ایمان سے دور بھاگنے والو! تم جھوٹ مت بولو اور نجاست نہ کھاؤ جو عیسائیوں نے کھائی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۱۵، خزائن ج۱ ص۲۳) پر ذیل کے تین شعر درج ہیں۔
نور شاں یک عالمے رادر گرفت تو ہنوزاے کوردر شورو شرے