واقف ہو چکے تھے کہ علما اپنے قول میں پختہ اور سچے ہیں۔ اب وہ میری بات کی طرف توجہ نہ کریں گے۔ اس لئے اپنے مریدین کے عقیدت بڑھانے کے الہام منعہ مانع من السماء اوتارا اور مریدین نے اس پر اٰمنا کہہ کر اخبار میں شائع کیا اور پیر صاحبؒ کے علمی واقفیت کو طشت ازبام بتایا۔ مگر یہ شرم نہ آئی کہ مرزاقادیانی نے خود ہی پیر صاحبؒ کو مناظرہ پر آمادہ کیا اور بڑے زور وشور سے مناظرہ میں جانے کا وعدہ مشتہر کیا اور پھر نہ گئے۔ یہاں مرزاقادیانی کی علمی لیاقت کا راز طشت ازبام نہ ہوا اور ان کے اقرار صریح کے بموجب خود جھوٹے اور ملعون نہ ٹھہرے۔ (شرم، شرم) بھائیو! کہیں تو سچی بات کا اقرار کرو اور اگر کچھ تردد ہو تو اس اجمال کی تفصیل بھی دیکھ لو اور روئیداد بعینہ آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔
روئیداد جلسہ اسلامیہ لاہور
متعلقہ مناظرہ عالی جناب پیر مہر علی شاہؒ سجادہ نشین گولڑہ شریف ودیگر علمائے عظام وصوفیا کرام پنجاب، منجانب اہل اسلام۔ بمقام مرزاغلام احمد قادیانی!
منعقدہ جامع مسجد شاہی لاہور بتاریخ ۲۷؍اگست ۱۹۰۰ء ’’الحمد ﷲ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ محمد والہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین‘‘ ناظرین! ۵؍جنوری ۱۸۹۹ء کو مرزاغلام احمد قادیانی پر ایک مقدمہ فوجداری میں زیر دفعہ ۱۰۷، ضابطہ فوجداری بعدالت صاحب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بہادر ضلع گورداسپور بحیثیت ملزم تھا۔ اخیر تاریخ فیصلہ پر اس کو ایک مفصل اقرار نامہ بوجہ بریت لکھنا پڑا جس کی پہلی تین شرطیں حسب ذیل تھیں۔۱… وہ ایسی پیشین گوئی شائع کرنے سے پرہیز کرے گا جس کے یہ معنی خیال کئے جاسکیں کہ کسی شخص کو (مسلمان، ہندو، عیسائی وغیرہ) ذلت پہنچے گی یا وہ موردعتاب الٰہی ہوگا۔
۲… وہ خدا کے پاس ایسی اپیل (دعا) کرنے سے اجتناب کرے گا کہ وہ کسی شخص کو ذلیل کرنے سے یا ایسے نشان ظاہر کرنے سے کہ وہ موردعتاب الٰہی ہے یا یہ ظاہر کرے کہ مذہبی مباحثہ میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔
۳… کسی چیز کو الہام جتا کر شائع کرنے سے مجتنب رہے گا۔ جس کا یہ منشاء ہو یا ایسا منشاء رکھنے کی معقول وجہ رکھتا ہو کہ فلاں شخص ذلت اٹھائے گا یا موردعتاب الٰہی ہوگا۔ اس اقرارنامہ کے تحریر کر دینے کے بعد چند روز تک بہ متبعیت اقرار نامہ مذکور مرزاقادیانی خاموش رہا۔ مگر اس کے