حیرت ہے آپ نے اپنے مجدد کے ارشادات اور افعال کا جائزہ تک نہیں لیا اور چلے نماز بخشوانے۔ میں مرزاقادیانی کے قول وفعل کی ایک جھلک آپ کو دکھاتا ہوں۔ ذرا ہمہ تن گوش بلکہ ہمہ تن چشم ہو جائیے۔
مجدد کی شناخت
مجدد کا اصطلاحی مفہوم
مجدد کے لفظی معنی تجدید کرنے والے کے ہیں۔ لیکن اصطلاحی میں مجدد اس شخص کو کہتے ہیں جو بدعات اور دین کی خرابیوں کو دور کر سکے۔ جن کی وجہ سے اسلام کے حقائق ومعارف دوبارہ اپنی اصلی شان میں نظر آسکیں۔ نبی اور مجدد میں یہ نمایاں فرق ہوتا ہے کہ نبی اﷲ کی طرف سے اﷲ کی شریعت اور کتاب اﷲ کی تبلیغ کرتا ہے اور خدا کا پیغام لوگوں کو سناتا ہے۔ اس شریعت، کتاب اور پیغام کی بناء پر لوگوں کو ایک نئے آئین اور نئے طریق کی طرف بلاتا ہے۔ وہ انبیاء ماسبق کا مطیع وتابع نہیں ہوتا۔ یعنی وہ پرانے دین کو پیش نہیںکرتا۔ بلکہ اپنا دین اور اپنی شریعت جاری کرتا ہے۔ لیکن مجدد نہ کوئی کتاب لاتا ہے، نہ نیا دستور العمل پیش کرتا ہے۔ نہ دعویٰ کرتا ہے، نہ منکرین ومؤمنین میں امتیاز روا رکھتا ہے۔ نہ اپنے منکرین پر کفر کا فتویٰ لگاتا ہے۔ کیونکہ ازروئے شریعت مجدد کی مجددیت پر ایمان لانا۔ فرض یاواجب نہیں۔ نہ اس سے انکار ایمان میں نقص پیدا کرتا ہے۔ کسی زمانہ میں ابتدائے اسلام سے اب تک کسی مفسر، محدث یا امام نے مجددین پر ایمان لانے کو شرط اسلام یا شرط ایمان قرار نہیں دیا۔ مسلمان کے لئے صرف خدا کا یہ حکم ہے کہ: ’’یاایہا الذین آمنوا آمنوا باﷲ ورسولہ والکتاب الذی نزل علیٰ رسولہ والکتب الذی انزل من قبل‘‘ اور کافر کے لئے فرمایا ہے کہ: ’’ومن یکفر باﷲ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر فقد ضل ضللاً بعیدا (النسائ:۱۳۶)‘‘ اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کا طالب ہو۔ الابطریق امارت المؤمنین!
مجدد کی تجدید کی نوعیت شرح ابوداؤد عون العبود میں اس طرح درج ہے۔ ’’تجدید سے مراد یہ ہے کہ کتاب اور سنت کے عمل میں سے جو باتیں مٹ چکی ہوں۔ ان کو ازسرنو زندہ کیا جائے اور لوگوں کو ان دونوں پر عامل ہونے کا حکم دیا جائے اور جو بدعات اور محدثات اور امور غیرشرعی دین میں داخل ہو گئے ہوں۔ ان کو بالکل نیست ونابود کر دیا جائے۔‘‘