نہیں کر سکتا تھا۔ پس اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی اپنے تئیں مامور خیال نہیں کرتے۔ اسی واسطے ان کو پیری مریدی کا ذاتی طور پر فکر دامن گیر رہتا تھا۔
لہٰذا چونکہ مرزاقادیانی کو خود دنیا کی ہدایت کا خیال نہیں۔ بلکہ نفسانیت پرستی کا خیال تھا۔ اس لئے ہم اپنے بھائیوں کی آگاہی کے لئے صرف مرزاقادیانی کے اقوال پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اصولی بحث ان مسائل پر کسی اور متصل تصنیف میں کریں گے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ!
الفصل الثانی
مرزاقادیانی کا اقدام ثانی، دوبارہ دعویٰ نبوت وانکار نبوت کسی نے خوب کہا ہے ؎
مجھ کو محروم نہ کر وصل سے اے شوخ مزاج
بات وہ کر کہ نکلتے رہیں پہلو دونوں
پیارے ناظرین! فصل اوّل میں مرزاقادیانی کے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق مختلف اقوال وعقائد کا ملاحظہ فرماچکے ہیں۔ اب خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر نقل وحرکت سے مرزاقادیانی کی کیا مراد تھی اور اس تصور کی تصدیق ہم سطور ذیل میں مشتے نمونہ از خروارے اس راز کا بھی افشاء کردینا چاہتے ہیں اور مندرجہ فصل اوّل میں حضرت مسیح کی موت ثابت کرنے سے مرزاقادیانی کی بخیال خود بات بنتی تھی۔ مگر چونکہ وہ حضرت مسیح کے یا مثیل مسیح کے ہر زمانہ میں آنے کے قائل معلوم ہوتے تھے۔ اس پر علماء کرام نے یہ اعتراضات کئے کہ اگر حضرت مسیح فوت ہوگئے ہیں تو پھر اب ان کی جگہ اور کون آئے گا۔ اس کے جواب میں مرزاقادیانی نے فرمایا اور غور فرمائیں کہ کیا فرمایا۔ کسی نے سچ کہا ہے ؎
بت کریں آرزو خدائی کی
شان ہے تیری کبریائی کی
جائیکہ از مسیح ونزدلش سخن رود
مسیح کے نزول کی جگہ کے متعلق سوال ہوتا ہے۔
گویم سخن اگرچہ نہ دارند باورم
میں لکھتا ہوں جواباً اگرچہ میرا اعتبار تو نہیں ہوگا
کاندر دلم دمید خداوند کردگار
میرے دل میں خدا نے ڈالا ہے کہ میں اس مسیح
کاں برگزیدہ راز رہ صدق مظہرمکا مظہر ہوں۔ موعود مسیح میں ہوں اور حدیث کے
موعودم وبحلیہ ماثور آمدم
بیان کردہ حلیہ میں آیا ہوں۔ افسوس ان پر جو مجھے
حیف است گربدیدہ نہ مبتد منظرم
پہچانتے نہیں ہیں۔ میرا رنگ گندمی اور بال