کہا جاتا ہے کہ کیا مرزاقادیانی وفات پاگئے ہیں یا وہ عورت مرگئی ہے۔ جس پر اب تک بھی امید کی جاتی ہے کہ مرزاقادیانی کے عقد میں آوے گی۔ یہ مرزاقادیانی کی جماعت کے اکثر ممبروں کے مقولے ہیں۔ مگر بادنیٰ تأمل صاف ظاہر ہے کہ اڑھائی برس تو گذر چکے اور آئندہ کسی زمانہ میں مرزاقادیانی اس سے نکاح کر بھی لیں تو کیا فائدہ۔ جب کہ وہ بوڑھے ہوتے جاتے ہیں اور رجولیت املی کے پتوں پر ڈنڈ پیل رہی ہے۔
تیسری پیشین گوئی
آریوں کے مشہور سرغنہ پنڈت لیکھرام سابق ملازم پولیس کے بارہ میں تھی۔ جو نوکری سے علیحدہ ہو کر آریہ اپدیشک ہوگیا تھا۔ فی الحقیقت مندرجہ عنوان مقتول اس میعاد کے اندر مرا ہے۔ مگر یہ ہوسکتا ہے کہ وہ مرزاقادیانی کی پیشین گوئی سے مرا۔ معاذ اﷲ! ہر گز نہیں بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ فلاں شخص چھ سال کے اندر اندر کسی دن مر جائے گا؟
اس مشہور ومعروف مقتول کے سلوک جو اہل ہنود بالخصوص سناتن دھرم والے لوگوں اور سکھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے ساتھ تھے۔ یعنی ہر ایک مذہب کی (اپنے زعم میں) کھنڈن کرنا، بھری مجلسوں میں برملا ان مذاہب کی سخت تضحیک اور پرلے درجہ کی حقارت کرنا ہر ایک دین ومذہب کے پیشوائوں کے حق میں جگر خراش الفاظ بکنا، کتب سماوی اور انبیاء علیہم السلام کی سخت بے تعظیمی کرنا دیکھ کر ایک موٹے عقل کا آدمی بھی رائے لگاتا تھا کہ مقتول مذکور کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ مثل مشہور ہے کہ سپیرے اور تیراک کی موت سانپ اور پانی سے ہوا کرتی ہے۔
…… مردم سوئے شرر دو
چوکژدم کہ درخانہ کمستر رود
جیسا کہ باوا رام چند مشہور ومعروف آریہ کا قتل ہونا شہر گجرات پنجاب میں واقعہ ہوا۔ یہ شخص بھی اپنے خصائل واوصاف میں لیکھرام کا ہر ایک پہلو میں ہم پلہ تھا اور اس کی نسبت کسی قسم کی پیشین گوئی بھی نہیں ہوئی تھی اور آخر کار عدم ثبوت کے باعث دونوں سکھ ملزمان پر کسی قسم کا جرم عائد نہ ہوا۔ ایک ڈویژنل کورٹ سے اور دوسرا چیف کورٹ سے بری ہوئے۔
غرض لاکھوں خلق خدا کے دل ’’پنڈت لیکرام‘‘ کی بدزبانی سنتے سنتے کباب ہوگئے تھے۔ مگر جتنے سانس کسی کے نصیب میں لکھے ہوں۔ لئے بغیر کہاں مر سکتا ہے۔ سو یہ ایک قدرتی بات ہے کہ کسی عیار دل جلے نے مقتول مذکور کا کام تمام کیا اور اغراض محال مان بھی لیا جاوے کہ مرزاقادیانی کی یہ پیشین گوئی پوری بھی ہوئی تو دوسری پیشین گوئیوں کو کس طرح سچا کر سکتی ہے؟