کی یاد دل میں چٹکیاں لینا شروع کر دیتی ہیں۔ جہاں نامحرم لڑکیوں کے جھرمٹ میں خلیفہ قادیان عیش وطرب کی آغوش میں جھولے جھولا کرتے تھے۔ اگر دریائے بیاس کے کنارے پر خلیفۂ قادیان کی ایک منٹ کی خاص محفل کی ظلمت وتاریکی کو تیرہ سو صدی کے نور پر پھیلایا جائے تو تمام نور کافور ہو جائے گا۔
جبری بھرتی
خلیفۂ قادیان نے اس فوج کے لئے جبری بھرتی کا اصول اختیار کیا تھا۔ ’’میں ایک دفعہ امور عامہ کو توجہ دلاتا ہوں… کہ میرا فیصلہ یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر سے لے کر پینتیس سال کی عمر تک کے تمام نوجوانوں کو اس میں جبری طور پر بھرتی کیا جاوے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۵؍اکتوبر ۱۹۳۳ئ)
کمانڈر انچیف اور وزارت
’’یہی وہ فوج ہے جس کے نوجوانوں نے سرڈوگلس نیگ کو جو اس وقت پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ قادیان میں باوردی والنٹیرز کور نے سلامی دی تھی۔‘‘
(الفضل مورخہ ۱۶؍اپریل ۱۹۳۹ئ)
اور اسی طرح لاہور جاکر ’’پنڈت جواہر لال نہرو‘‘ کو بھی سلامی دی گئی۔ شروع میں ناظر صاحب امور عامہ اس فوج کے کمانڈر انچیف تھے۔ لیکن جلد ہی خلیفۂ قادیان نے ان کو برطرف کرتے ہوئے یہ کہا: ’’کمانڈر انچیف اور وزارت کا عہدہ کبھی بھی اکٹھا نہیں ہوا۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۳۳ئ)
خلیفۂ قادیان کو اپنی اس فوجی تنظیم پر اتنا ناز اور فخر تھا کہ ایک دفعہ ’’الفضل‘‘ نے یہ لکھا کہ: ’’حضور نے احمدیہ کور کی جو سکیم آج سے تقریباً پانچ سال پہلے تجویز فرمائی تھی۔ اس کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ عام اقوام تو الگ رہیں۔ اس وقت بعض بڑی بڑی حکومتیں بھی اپنی قوت مدافعت میں اضافہ کرنے کے لئے بعض ایسے احکام نافذ کر رہی ہیں کہ جو اس تحریک کے اجزاء ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۲؍اگست ۱۹۳۹ئ)
مطلق العنان بادشاہ کا ہلالی پرچم
اگر خلیفہ صاحب کا مطمع نظر اور مدعا محض اشاعت اسلام تھا تو اس مقدس ومطہر مقصد کے لئے اشاعتی ادارے قائم ہوتے نہ کہ عسکری تربیت پر روپیہ خرچ کیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ