حکومتیں اور قومیں مجھ سے ڈرتی ہیں
الغرض ’’خلیفہ صاحب ربوہ‘‘ ایک مطلق العنان بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا ہر حکم جماعت کے ممبروں کے نزدیک آخری حرف کی حیثیت رکھتا ہے۔ خلیفہ صاحب کے ادنیٰ اشارہ پر اپنی جان ومال عزت آبرو قربان کر دینا عین سعادت سمجھتے ہیںاور ان کی کمائی کا اکثر حصہ خلیفہ صاحب کی آتش حرص کو بجھانے کے کام آتا ہے۔ خلیفہ صاحب نے دنیا کے مختلف ممالک میں مبلغ بھیجے ہوئے ہیں۔ وہ خلیفہ صاحب کے بطور سفیر کے ہیں۔ یعنی:
مرزامحمود کی C.I.D
خلیفہ صاحب لاکھوں روپے گورنمنٹ کی کرنسی سے حاصل کر کے بیرونی ممالک میں اپنی من مانی کاروائیوں کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ کبھی مبلغوں کی تنخواہوں کا عذر تراشتے ہیں۔ کبھی معبدخانہ کی تعمیر کا ڈھنڈورا پیٹ کر لاکھوں روپیہ فارن کرنسی سے لئے جاتے ہیں اور خرچ اپنی مرضی سے کیا جاتا ہے۔ بالآخر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے لئے وہ معابد تیار ہوتی ہیں۔ ان کا چندہ کہاں جاتا ہے۔
خلیفہ صاحب خود کہتے ہیں کہ حکومتیں ملک اور قومیں مجھ سے ڈرتی ہیں۔ خلیفہ صاحب اپنے کار خاص یعنی (C.I.D) کے ذریعہ مخفی راز معلوم کرتے ہیں۔ ان کی اپنی عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، فوج اور بینک ہیں۔ پس حکومت پاکستان کا ریاست ربوہ سے سہل انگاری برتنا، ملک وملت سے غداری کے مترادف ہے۔ ربوہ میں کسی احمدی کو اجازت حاصل کئے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ اب جو بھی احمدی ربوہ میںآتا ہے۔ وہ اپنے حلقہ کے پریزیڈنٹ یا امیر کی تصدیق لاتا ہے۔ یہ بات صرف ربوہ سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ تقسیم ہند سے پہلے یہی حکم قادیان کے متعلق تھا کہ جو مضافات قادیان میں سکونت اختیار کرنا چاہیں وہ نظارت امور عامہ سے اجازت حاصل کرے۔ چنانچہ خلیفہ صاحب فرماتے ہیں۔
’’مضافات قادیان، ننگل، باغباناں، بھینی بانگر خوردوکلاں، کھارا، نواں پنڈ، قادر آباد اور احمدآباد وغیرہ میں سکونت اختیار کرنے کے لئے باہر سے آنے والے احمدی دوستوں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ پہلے نظارت ہذا سے اجازت حاصل کریں۔‘‘ (مورخہ ۲۵؍جنوری ۱۹۳۹ء الفضل) پھر ربوہ میں آکر ۱۹۴۹ء میں خلیفہ صاحب اعلان فرماتے ہیں: ’’سب تحصیل لالیاں میں کوئی احمدی بلا اجازت انجمن، زمین نہیں خرید سکتا۔‘‘