کے وسط سے اب تک جاری کر رکھے ہوئے ہیں اور جس کی متعدد مثالیں آپ کے ترجمان ’’لاہور‘‘ کے کالموں میں ہر ہفتے آپ کے سامنے آتی ہیں اور اس تمام جائزے کے بعد آپ غور فرمائیے کہ آپ کا یہ تأثر کس حد تک درست ہے۔ جس پر ہم نے مثبت ومنفی دونوں پہلوؤں سے حقائق آپ کے سامنے پیش کئے ہیں۔
قادیانی امت دینی حیثیت سے
قادیانیوں کے کافر قرار دئیے جانے کے بارے میں قادیانیوں کے تأثر پر گفتگو کے بعد اب ہم براہ راست اسلامی نقطہ نظر سے قادیانیوں کی مذہبی حیثیت پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ ’’وبیدہ اﷲ التوفیق‘‘ ہمارے نزدیک ’’قادیانی مسلم نزاع‘‘ میں بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ’’قادیانی مرتد ہیں‘‘ اقلیت یا غیر مسلم اقلیت کے عنوانات رسمی اصطلاحات اور جدید سیاسی تعبیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ارتداد کا عنوان ایک مستقل دینی مسئلے کی حیثیت سے قرآن مجید، احادیث رسول اﷲﷺ اور امت کے چودہ سو سالہ دینی لٹریچر میں زیر بحث ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عہد رسالت سے اب تک پوری امت اس پر متفق ہے کہ حضور امام الانبیاء وخاتم الرسل، سید الاولین والآخرین، محمد مصطفیﷺ کے بعد اگر کوئی مسلمان کسی اور مدعی نبوت کو تسلیم کرتا ہے تو امت کے نزدیک وہ اسی لمحے مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار پاتا ہے۔
حضور سرور کونینﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں طلیحہ اسدی اور مسیلمہ کذاب نبوت کے مدعی بن بیٹھے تھے۔ حضور اکرمﷺ کی رحلت کے بعد سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے خلیفۃ الرسولﷺ کی حیثیت سے یہ اعلان فرمایا کہ اگرچہ مرتدین کے کئی گروہ ہمارے سامنے ہیں۔ مگر سب سے پہلے: ’’نعمد لہذا الکذاب علی اﷲ وعلیٰ رسولہ طلیحۃ‘‘ ہم اﷲ ذوالجلال اور حضور نبی اکرمﷺ پر کذب وافتراء کرنے والے طلیحہ اسدی کی جانب کوچ کرتے ہیں۔
لیکن جب سیدنا فاروق اعظمؓ اور بعض دوسرے اکابر صحابہؓ کے اصرار پر سیدنا صدیق اکبرؓ خود تو مرتدین کی سرکوبی کے لئے نہ جاسکے اور آپؓ نے سیدنا خالد بن ولیدؓ کے زیرقیادت اسلامی فوج کو مرتدین کے خلاف جہاد کے لئے روانہ فرمایا تو انہوں نے بھی سب سے پہلے طلیحہ ہی کے خلاف جہاد کیا۔ طلیحہ کے امتی کثیر تعداد میں قتل ہوئے۔ طلیحہ بھاگ گئے اور آخر کار انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور راہ حق میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔
دوسرے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس کے دعویٰ کی خصوصیات حسب ذیل تھیں۔ مسیلمہ کذاب: