ٹکہ صاحب سے لے لینا۔ لہٰذا وہ دان آپ دے دیں۔ ٹکہ صاحب تھے ہوشیار ۔ وہ کہنے لگے کہ اچھا بھئی میں بھی رات کو توجہ کروں گا۔ اگر مہاراجہ صاحب نے خواب میں مجھے بھی کہا تو صبح ایک سو روپیہ تم کو دان دے دوں گا۔ اس پر میراسی چلا گیا۔ دوسری صبح آیا تو ٹکہ صاحب کہنے لگے بھئی مہاراجہ صاحب خواب میں آئے تو تھے۔ مگر وہ کہہ گئے ہیں کہ اگر میراسی دان مانگے تو جوتا لگا دینا اور روپیہ کو نہ دینا۔ اس پر میراسی مسمسی شکل بنا کر کہنے لگا کہ حضور وہ بڑا ایسا ویسا ہے۔ (گالی گندی نکال کر) کہ مجھے کچھ کہہ گیا اور آپ کو کچھ کہہ گیا۔ تو الغرض اختلافات کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
قیامت خیز ہے افسانۂ درد الم میرا
نہ کھلواؤ زباں میری نہ اٹھواؤ قلم میرا
کسی نے سچ کہا ہے ؎
ہم بھی قائل تیری نیرنگی کے ہیں یاد رہے
او زمانے کی طرح رنگ بدلنے والے
الفصل الرابع
فی مسائل المتفرقہ
ناظرین کرام! رسالہ ہذا کی ہر سہ فصول گذشتہ کو ملاحظہ گرامی کا شرف عطاء فرماچکے ہیں۔ جو صرف مرزاقادیانی کی اور ان کے خلیفہ کی دو رنگیوں پر کسی قدر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اب فصل ہذا میں مرزاقادیانی اور ان کے چیلوں کی پیچیدہ بیانیوں اور رسیدہ کلامیوں کا کسی قدر ذکر کرنا مقصود ہے تاکہ قادیانیوں کی باریک چالوں اور فریب انداز اقوال سے ہمارے بھائی ہوشیار ہو جائیں۔ لہٰذا نمونتہً صرف چند ایک صفحات ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔ مرزائی لوگ مرزاقادیانی کی نبوت کے باب میں کہ مرزاقادیانی نبی ہیں۔ اس واسطے کہ وہ خود لکھتے ہیں کہ میری نبوت کو پہلے انبیاء کی نبوت پر قیاس کرو۔ پس اگر وہ نبی نہ ہوتے تو یہ کیوں لکھتے کہ مجھے انبیاء سابقین کے ساتھ آزمالو۔
حالانکہ مسلمان تو مرزاقادیانی کو سچا مسلمان بھی نہیں مانتے۔ پھر ان کی اس تاویل پر پرکھ کر ان کو نبی بنانے کی کیونکر کوشش کر سکتے۔ خیر اگر بفرض محال مرزاقادیانی کی اس تاویل کو درست بھی مان لیں اور مرزائی لوگوں کے نزدیک یہ بات بالکل مسلم ہے کہ مرزاقادیانی کو جس کے ساتھ پرکھا جاوے۔ یعنی جس کے ساتھ مرزاقادیانی نے پرکھنے کا حکم دیا ہے۔ اسی جیسے مرزاقادیانی ثابت ہوسکتے ہیں تو پھر: