آنحضرت(ﷺ) نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود ہیں… اور یہی وہ بات ہے جو حضرت مسیح موعود بالتکرار فرماتے ہیں… حضرت مسیح کی پیش گوئی اسمہ احمد کا مصداق وہ مسیح موعود ہے۔ جس کی بعثت ایسے زمانے کے لئے مخصوص ہے۔ جب مسلمان اسلام سے برگشتہ ہوچکے ہوںگے اور ان کی برگشتگی کی وجہ سے شان محمدیت کے سورج کو گرہن لگا ہوا ہوگا۔‘‘ (اسمہ احمد حصہ اوّل ص۵۰)
سید زین العابدین اس کتاب کے آخری پیراگراف میں کہتے ہیں: ’’خلاصہ یہ کہ کیا باعتبار اپنے نام کے اور کیا باعتبار اس عظیم الشان کام کے… صرف ایک آپ ہی درحقیقت سورۂ صف کی پیش گوئیوں کے مصداق ہیں۔ دوسرا کوئی نہیں۔‘‘ (اسمہ احمد حصہ اوّل ص۷۴)
ان توضیحات کے بعد کسی قسم کا شائبہ اس حقیقت میں باقی نہیں رہتا کہ قادیانی امت ’’مبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ کا مصداق صرف اور صرف مرزاغلام احمد قادیانی کو قرار دیتی ہے۔ امام الانبیاء کو نہیں۔
ایک اور عبرت انگیز پہلو اس مسئلے کا اور وہ یہ کہ انہوں نے اس اعتراض کا جواب بھی دیا کہ مرزاقادیانی کا نام تو غلام احمد ہے۔ انہیں ’’احمد‘‘ کیسے کہا جاسکتا ہے۔
زین العابدین صاحب فرماتے ہیں: ’’یہ اعتراض کہ اگر اسمہ احمد سے مراد مسیح کا نام ہے تو یہ درست نہیں۔ کیونکہ آپ کا نام ’’غلام احمد‘‘ ہے۔ (اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں) غلام کا لفظ قرآن مجید میں نہیں… پیش گوئی میں اصل اعتبار درحقیقت معانی کو ہوا کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آنے والے ابن مریم یا مہدی موعود کا نام آنحضرتﷺ نے احمد بتایا ہے۔ حضرت مسیح نے بھی جو کام اپنی آمد ثانی کا بتلایا۔ اس کے اعتبار سے بھی وہ احمد ہے۔ قرآن مجید نے بھی اس کا نام احمد بتلایا۔ اﷲ تعالیٰ نے بھی اپنی وحی میں حضرت مرزاصاحب کو احمد ہی کر کے اکثر پکارا۔ اس پر اتفاق یہ کہ والدین نے بھی آپ کا جو نام تجویز کیا۔ اس میں بھی اصل احمد ہے۔‘‘ (اسمہ احمد حصہ اوّل ص۵۰،۵۱ حاشیہ)
یہ تو تھا ناظر دعوت وتبلیغ کا عقیدہ۔
قرآن مجید کی خوشخبری میں حضورؐ کا نہیں مرزاغلام احمد کا ہی ذکر ہے
اور اس کی تصدیق مرزاغلام احمد قادیانی کے الہامی فرزند مصلح موعود مرزامحمود ان الفاظ سے کرتے ہیں: ’’پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آیا حضرت مسیح موعود کا نام احمدتھا یا آنحضرتﷺ کا اور کیا سورہ صف کی آیت جس میں ایک رسول کی جس کا نام احمد ہوگا۔ بشارت دی گئی ہے۔