ابن مریم (مشکوٰۃ ص۵۱۳)‘‘ {میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ بن مریم کی بشارت کا مظہر ومصداق ہوں۔}
چنانچہ حضورﷺ کی بعثت سے اب تک پوری امت اسی عقیدے کی حامل ہے کہ ’’اسمہ احمد‘‘ کا مصداق حضور ہی ہیں۔ لیکن مرزاغلام احمد قادیانی نے جو شب خون عظمت رسالت خاتم النبیینﷺ پر مارا۔ اس کا ہدف یہ بشارت بھی بنی اور مرزاغلام احمد قادیانی نے یہ اعلان کیا کہ: ’’اور جیسا کہ آیت ’’مبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ میں یہ اشارہ ہے کہ آنحضرتﷺ کا آخر زمانہ میں ایک مظہر ظاہر ہوگا… جس کا نام آسمان پر احمد ہوگا اور وہ حضرت مسیح کے رنگ میں جمالی طور پر دین کو پھیلائے گا۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۳۱، خزائن ج۱۷ ص۴۲۱)
انہوں نے مزید کہا: ’’خوب توجہ کر کے سن لو، اب اسم محمدؐ کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں۔ یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں۔ کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہوچکا۔ سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔ اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۴۴۵)
مرزاغلام احمد قادیانی کے اس اعلان کو قادیانیوں نے خوب خوب اچھالا اور حتمی ویقینی طور پر اس بشارت مسیح ابن مریم کو مرزا قادیانی پر چسپاں کیا۔ قادیانیوں کے اس عقیدے کی توضیح وتائید کے سلسلے میں قادیانی جماعت کے ایک بڑے عہدہ دار اور متنبی قادیان کے خاندان کے ایک ممتاز رکن سید زین العابدین ولی اﷲ شاہ، ناظر دعوت وتبلیغ قادیان نے قادیانیوں کے ظلی حج (جلسہ سالانہ) ۱۹۳۴ء کے اجلاس میں ایک تقریر اسمہ احمد کے عنوان پر کی جو بعد ازاں اسمہ احمد اور حجۃ اﷲ البالغہ کے دوہرے نام سے ۸۰صفحات پر مشتمل کتاب کی صورت میں شائع ہوئی۔ زین العابدین ولی اﷲ شاہ کہتے ہیں: ’’اس سورہ (صف) میں ’’یا ایہا الذین آمنوا‘‘ کہہ کر مسلمانوں کو تین مرتبہ مخاطب کیاگیا ہے اور ان سے یہ کہاگیا ہے کہ تم اس بات کو بھولنا نہیں کہ جب موسیٰ کی قوم ٹیڑھی چالیں چلی تو خداتعالیٰ نے ان کے دلوں کو ملعون کر دیا اور بجائے محبت کے ان سے نفرت کی اور مسلمانوں کو بھی مخاطب کر کے ان سے یہ کہاگیا کہ مسلمانو! تم نے یہ بات بھی نہیں بھولنی کہ حضرت مسیح نے اپنے بعد ایک رسول کی بشارت دی تھی۔ جس کا نام احمد ہے۔ چونکہ روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے اور انہی کی بدعہدی اور دوبارہ اصلاح کا سوال ہے۔ اس لئے یہاں