خدا نے لیا عہد سب انبیاء سے
کہ جب تم کو دوں میں کتاب اور حکمت
پھر آئے تمہارا مصدق پیغمبرتم ایمان لاؤ کرو اس کی نصرت
کہا کیا یہ اقرار کرتے ہو محکم
وہ بولے مقر ہے ہماری جماعت
کہا حق تعالیٰ نے شاہد رہو تم
یہی میں بھی دیتا رہوں گا شہادت
جو اس عہد کے بعد کوئی پھرے گا
بنے گا وہ فاسق اٹھائے گا ذلت
لیا تھا جو میثاق سب انبیاء سے
وہی عہد حق نے لیا مصطفیٰ سے
وہ نوح و خلیل و کلیم و مسیحا
سبھی سے یہ پیمان محکم لیا تھا
مبارک وہ امت کا موعود آیا
وہ میثاق ملت کا مقصود آیا
کریں اہل اسلام اب عہد پورا
بنے آج ہر ایک عبداً شکورا
(الفضل قادیان مورخہ ۲۶؍فروری ۱۹۲۴ئ)
قادیانیوں کے اس عقیدہ کے دینی نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب قادیانی امت کے لاہوری فرقہ کے ترجمان پیغام صلح نے ان الفاظ میں دیا: ’’چنانچہ الفضل قادیان مورخہ ۱۹،۲۱؍ستمبر ۱۹۱۵ء میں اس پر دھڑلے سے مضمون نکلا اور پھر اس کے بعد طرح طرح سے اس کا اعادہ کیاگیا اور کھلم کھلا ڈنکے کی چوٹ پر اس کا اعلان کیاجاتا رہا کہ اس پیش گوئی میں جس رسول کا وعدہ ہے اور جس کے متعلق اقرار کر لیا گیا ہے کہ ہر ایک نبی اس پر ایمان لائے اور اس کی نصرت کرے۔ وہ مسیح موعود ہے اور یہ نہ سمجھا کہ اس طرح تو پھر لازم آئے گا کہ: ’’لوکان محمد حیا لما وسعہ الااتباع المسیح الموعود‘‘ کہ اگر محمد رسول اﷲ زندہ ہوتے تو انہیں چارہ نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ مسیح موعود کی اتباع کرتے۔ یعنی مسیح موعود متبوع اور آقا ہوتے اور محمد رسول اﷲﷺ نعوذ باﷲ متبع اور غلام ہوتے۔ یہ نتیجہ ایسا دقیق تو نہیں کہ انسان سمجھ نہ سکے۔ مگر جب ایک قوم اپنے نبی کو سب نبیوں سے بڑھانا چاہتی ہو تو پھر سب کچھ حلال ہو جاتا ہے۔ محمد رسول اﷲﷺ کو ان نبیوں کی ذیل میں شامل کردیا۔ جن سے ایمان لانے اور نصرت کرنے کا اقرار لیاگیا تھا۔ گویا محمد رسول اﷲ آج زندہ ہوتے تو مسیح موعود پر ایمان لاتے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے اور ہر ایک قسم کی اتباع اور نصرت کے لئے آپ کے احکام کی پیروی کو ذریعہ نجات سمجھتے۔ کیا اس سے بڑھ کر محمد رسول اﷲﷺ کی ہتک متصور ہوسکتی ہے۔ کیا اس سے صاف نظر نہیں آتا کہ محمد رسول اﷲﷺ کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود کی پوزیشن کو بدرجہا بلند کرنے اور ان کو ایک آقا کی حیثیت دینے میں نہایت جرأت سے کام لیاگیا ہے۔‘‘ (پیغام صلح مورخہ ۷؍جون ۱۹۳۴ئ)