اور خود مرزاغلام احمد قادیانی کے اپنے الفاظ سے یہ اتمام حجت بھی ہوا کہ اگر کوئی مدعی نبوت والہام بعینہ وہی الفاظ بطور وحی یا الہام دہرا دے جو اس سے پہلے کی وحی کے الفاظ ہوں۔ تب بھی یہ وحی شریعت والی وحی ہوگی اور جس پر دوبارہ یہ الفاظ نازل ہوئے وہ صاحب الشریعۃ مدعی ہوگا۔ جیسا کہ انہوں نے ’’قل للمؤمنین یغضوا من ابصارہم‘‘ کی وحی سے استدلال کیا کہ یہ آیت بعینہ قرآن مجید میں ہے اور حضور خاتم النبیینﷺ پر نازل ہوئی۔ مگر چونکہ مرزاغلام احمد قادیانی کے ادّعا کے مطابق یہ الفاظ دوبارہ مرزاغلام احمد قادیانی پر نازل ہوئے۔ لہٰذا وہ صاحب شریعت قرار پائے۔ ان تصریحات اور واضح اقرار واعتراف بلکہ اعلان واظہار کے بعد دنیا کی ہر عدالت اور ہر شریعت انسان یہ فیصلہ صادر کرنے پر مجبور ہوگا کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے صاحب الشریعت نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔
لیکن ایک تو اس لئے کہ ہم اس کتاب کے ذریعے ایسے قادیانی حضرات کو مرزا غلام احمد قادیانی کے چنگل سے آزاد کرانے کی اپنی ایمانی آرزو کو بھرپور اور مدلل انداز میں عملی صورت دینے کے متمنی ہیں جو ہنوز اﷲ رب العزت کے حضور پیش ہونے کے انتہائی ہولناک لمحات کا خوف اپنے دلوں میں رکھتے ہیںاور وہ اس بات کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں کہ کھلے دل ودماغ سے کسی دلیل پر غور کر سکیں اور حق کو حق ہونے کی بناء پر قبول کر سکیں اور باطل کو باطل سمجھ کر چھوڑ سکیں۔ وہ ہماری ان معروضات پر غور کر سکیں اور اپنے دوسرے مقصد کے پیش نظر بھی کہ معاند قادیانیوں پر من کل الوجوہ اتمام حجت کریں اور اس کے بعد اﷲ رب العزت اپنا فیصلہ صادر فرمائے۔ ان ہر دو وجوہ کی بناء پر مزید وضاحت کی غرض سے عرض کرتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اسی کتاب میں کہا: ’’چونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید بھی اس لئے خداتعالیٰ نے میری تعلیم کواور اس وحی کو جو میرے پر ہوئی۔ فلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا ہے۔ جیسا کہ ایک الہام الٰہی کی یہ عبارت ہے: ’’واصنع الفلک باعیننا ووحینا ان الذین یبایعونک انما یبایعون اﷲ یداﷲ فوق ایدیہم‘‘ یعنی اس تعلیم اور تجدید کی کشتی کو ہماری انکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے بنا۔ جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں۔ وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے۔ اب دیکھو خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لئے مدار نجات ٹھہرایا۔ جس کی آنکھیں ہوں وہ دیکھے اور جس کے کان ہوں وہ سنے۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۶ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)