قرآن، حدیث اور انبیاء سب کو مرزاغلام احمد قادیانی کی وحی اور ان کی نبوت کے سپرد کردیا۔ وہ ایک خطبہ جمعہ میں کہتے ہیں: ’’جن پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے۔ وہ معمولی انسان نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کی ہستیاں دنیا سے جدا ہوتی ہیں اور ان کے لئے خدا تعالیٰ یہاں تک کہتا ہے کہ اگر کوئی میرا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ ان کے ذریعہ حاصل کرو اور ایسے نبی شرعی ہوں یا غیرشرعی ایک ہی مقام پر ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو غیرشرعی کہتے ہیں تو اس کا صرف مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی نیا حکم نہیں لایا ہے۔ ورنہ کوئی نبی ہو ہی نہی سکتا جو شریعت نہ لائے۔ ہاں بعض نئی شریعت لاتے ہیں اور بعض پہلی شریعت ہی دوبارہ لاتے ہیں۔ پس شرعی نبی کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے کلام لائے۔ رسول کریمﷺ تشریعی نبی ہیں۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ قرآن پہلے لائے اور حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) غیرتشریعی نبی ہیں۔ تو اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ پہلے قرآن نہیں لائے۔ ورنہ قرآن آپ بھی لائے۔ اگر نہ لائے تھے تو خداتعالیٰ نے کیوں کہا کہ اسے قرآن دے کر کھڑا کیاگیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود بڑی وضاحت سے فرماتے ہیں۔ مولوی لوگ حدیثیں لئے پھرتے ہیں۔ مگر حدیثوں کا یہ کام نہیں کہ میرے متعلق فیصلہ کریں۔ بلکہ میرا کام ہے کہ میں بتاؤں کہ فلاں حدیث درست ہے اور فلاں غلط… پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب کوئی نبی آجائے تو پہلے نبی کا علم بھی اسی کے ذریعہ ملتا ہے۔ یوں اپنے طور پر نہیںمل سکتا اور ہر بعد میں آنے والا نبی پہلے نبی کے لئے بمنزلہ سوراخ کے ہوتا ہے۔ پہلے نبی کے آگے دیوار کھینچ دی جاتی ہے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ سوائے آنے والے نبی کے ذریعہ دیکھنے کے۔ یہی وجہ ہے کہ اب قرآن نہیں سوائے اس قرآن کے جو حضرت مسیح موعود نے پیش کیا اور کوئی حدیث نہیں سوائے اس حدیث کے جو حضرت مسیح موعود کی روشنی میں نظر آئے اور کوئی نبی نہیں سوائے اس کے جو حضرت مسیح موعود کی روشنی میں دکھائی دے۔ اسی طرح رسول کریمﷺ کا وجود اسی ذریعہ سے نظر آئے گا کہ حضرت مسیح موعود کی روشنی میں دیکھا جائے۔ اگر کوئی چاہے کہ آپ سے علیحدہ ہوکر کچھ دیکھ سکے تو اسے کچھ نظر نہ آئے گا۔ ایسی صورت میں اگر کوئی قرآن کو بھی دیکھے گا تو وہ اس کے لئے یہدی من یشاء والا قرآن نہ ہوگا۔ بلکہ یضل من یشاء والا قرآن ہوگا۔ اسی طرح اگر حدیثوں کو اپنے طور پر پڑھیں گے تو مداری کے پٹارے سے زیادہ وقعت نہ رکھیں گی۔ حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے۔ حدیثوں کی کتابوں کی مثال تو مداری کے پٹارے کی ہے۔ جس طرح مداری جو چاہتا ہے اس میں سے نکال لیتا ہے۔ اسی طرح ان سے جو چاہو نکال لو۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۱۵؍جولائی ۱۹۲۴ئ)