تھے کہ مجھ پر نازل ہونے والی وحی اور الہامات قرآن ہی کی طرح مانے جائیں۔ قادیانی امت نے ٹھیک ٹھیک اسی طرح مانا اور جس طرح قادیانی مرزاغلام احمد قادیانی کے لٹریچر کو اس حد تک مقدس سمجھتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے قلم سے قرآنی آیات میں جو غلطیاں سرزد ہوئیں اور خود مرزاقادیانی کے سامنے یہ غلطیاں شائع ہوئیں اور ان کی جہالت اور قرآن کے بارے میں بدذوقی کہ ان غلطیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور قادیانیوں نے آج تک ان غلطیوں کو قادیانی کتب میں باقی رکھ کر قرآن مجید کی حفاظت، تقدس اور اہمیت پر مرزاغلام احمد قادیانی کی جہالت یا کم ازکم غلط نویسی کو اہمیت دی۔ لیکن دوسری جانب انہوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کے مجموعہ الہامات کو الکتاب المبین اور ان کے دعویٰ کے مطابق ان پر نازل شدہ الہام کے ہر جملہ کو آیت کی حیثیت دی۔
مرزاغلام احمد قادیانی کے اس عقیدے اور قادیانی جماعت کے اس پر ایمان وعمل نے انہیں اس امت سے خارج کر دیا۔ جو قرآن مجید کو اس ارضی کائنات میں واحد محفوظ آسمانی وحی یقین کرتی ہے اور وہ جس طرح اﷲ رب العزت کی الوہیت اور حضور خاتم النبیین کی ختم نبوت میں کسی دوسرے کو شریک کرنے کو شرک فی الالوہیۃ سے تعبیر کرتی ہے۔ اسی طرح یہ امت قرآن مجید کی آیت اور اس کے واحد محفوظ منزل من اﷲ کتاب ہونے کی صفت میں کسی دوسری کتاب کو شریک کرنے کو بھی شرک فی الرسالۃ قرار دیتی ہے۔
قادیانی متنبی، احادیث نبویہ کے رد وقبول میں حکم ہیں
قادیانی وحی کو قرآن مجید کے بالمقابل مساویانہ حیثیت دینے کے بعد مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی امت کو جس دوسرے عقیدے پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ سید الثقلین، خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفیﷺ کی حدیث کے رد اور قبول کرنے میں مرزاغلام احمد قادیانی کو حکم مانیں۔ وہ جن احادیث کو رد کردیں۔ انہیں یکسر چھوڑ دیں اور جن کو قبول کریں انہیں تسلیم کریں۔
انہوں نے مزید کہا: ’’اور جو شخص (مرزاغلام احمد قادیانی) حکم ہوکر آیا ہے۔ اس کا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کر دے۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۰ حاشیہ، خزائن ۱۷ ص۵۱) مرزاغلام احمد قادیانی کے بوئے ہوئے بیج اب تناور درخت بننے لگے اور مرزامحمود نے