یہاں بات ’’صرف خیال ہوسکتا‘‘ کی حد تک تھی۔ لیکن اس شخص کی ذہنی اور قلبی کیفیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ پہلے تو ’’خیال ہوسکتا ہے‘‘ کا نرم جملہ استعمال کیا۔ اگرچہ یہ خیال بجائے خود ایک نبی کے بارے میں ’’کفر‘‘ کے مترادف ہے کہ وہ ایک معجزے کے لئے اس قسم کی دھوکہ بازی کرے کہ استعمال تو کرے ایک تالاب کی مٹی، جس میں مذکورہ قسم کی صلاحیت موجود ہو اور پھر جب چوری چھپے یہ مٹی لے آئے تو اس سے ظاہر ہونے والے کرشمے کو معجزہ کا نام دے۔
لیکن اس سے بھی زیادہ مرزاغلام احمد قادیانی کے اندرون کا یہ ابتر حال کہ ایک لمحہ پہلے تو انہوں نے ’’خیال ہوسکتا ہے‘‘ کے موہوم اور ’’استعمال کرتے ہوں گے‘‘ کے امکانی تصور بلکہ تخیل کو ظاہر کیا۔ لیکن دوسرے لمحے میں ہی اسے ایک یقینی اور حتمی حقیقت اور واقعہ کی صورت دے دی اور برملا کہا کہ: ’’اسی تالاب سے آپ کے معجزات کی ’’پوری پوری حقیقت‘‘ کھلتی ہے اور اس تالاب نے فیصلہ کر دیا… (کہ) آپ کے ہاتھ میں سوا ’’مکروفریب‘‘ کے کچھ نہ تھا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
’’ہوسکتا ہے‘‘، ’’ہوگیا‘‘ میں بدل گیا۔ ’’استعمال کرتے ہوں گے‘‘، ’’یقینا استعمال کرتے تھے‘‘ میں تبدیل ہوا اور اس نے پوری حقیقت کھول دی اور آخر اس نے ’’فیصلہ‘‘ صادر کر دیا کہ مسیح یسوع کے ہاتھ میں ’’مکروفریب‘‘ کے سوا کچھ نہ تھا۔
جو لوگ مرزاغلام احمد قادیانی کو اس مقام پر فائز مانتے ہیں۔ جس کا حوالہ اوپر دیاجاچکا ہے کہ نعوذ باﷲ من ذالک، سیدالکونین محمد مصطفیﷺ کی بعثت ثانیہ مرزاغلام احمد قادیانی کی صورت میں قادیان میں ہوئی اور وہ حضورﷺ کی مکہ مکرمہ میں پہلی بعثت سے کہیں زیادہ قوی اور روحانی پہلو سے شدید تھی۔ کیا یہی ایک مثال جو ہزاروں میں سے ایک ہے۔ اس بات کے لئے کافی نہیں کہ وہ اس شخص کی صحیح پوزیشن کو سمجھیں اور اس کے اس انداز گفتگو اور اس معیار اخلاق کے پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آنے کے بعد تو پہچان جائیں کہ انہیں ان کے بارے میں دھوکہ لگا اور انہوں نے ایک کاذب کو صادق مان کر ہولناک غلطی کا ارتکاب کیا۔
اور اگر وہ ان کھلے حقائق کے مشاہدے کے بعد بھی مرزاغلام احمد قادیانی کے ’’تقدس‘‘ کے قائل ہیں تو اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ ان کے ہاں نبوت کا تصور بعینہ وہی رائج ہے جو یہود کے ہاں ہے اور اﷲتعالیٰ نے ان پر ان کے اسی کردار کی وجہ سے ہدایت کا دروازہ بند کر دیا ہے اور وہ ’’من یضلل اﷲ فلا ہادی لہ‘‘ کی عبرتناک مثال بن کر رہ گئے ہیں۔ ’’ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب‘‘