ثابت ہوتے ہیں یا اس کے خلاف (نعوذ باﷲ من ذلک) اگر اس عقیدے کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کے یہ معنی ہوںگے کہ آپ(ﷺ) نعوذ باﷲ دنیا کے لئے ایک عذاب کے طور پر آئے تھے اور جو شخص ایسا خیال کرتا ہے وہ لعنتی مردود ہے۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۸۶،۱۸۷)
ختم نبوت کا یہ متفق علیہ اور قطعی مفہوم کہ حضورﷺ کے بعد کوئی شخص بحیثیت نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ اس عقیدے کو یہ معنی پہنانا کہ نعوذ باﷲ من ذلک حضور رحمت نہیں بلکہ عذاب کے طور پر آئے تھے۔ اگر اس گستاخی اور بدگوئی کو کفر نہیں کہا جاسکتا تو کفر کا لفظ کہاں بولا جائے گا؟
مرزامحمود کی اس جسارت پر ہمارے اور عام مسلمانوں کے جذبات کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب پانے کے لئے مرزاغلام احمد قادیانی کے ایک امتی اور لاہوری جماعت کے مؤسس وبانی مولوی محمد علی ایم۔اے کا یہ تبصرہ ملاحظہ کیجئے۔ انہوں نے مرزامحمود کی مذکورہ تحریر کے بارے میں کہا: ’’ہم کہتے ہیں کہ ساری امت صحابہ سے لے کر مسیح موعود تک (یا بقول میاں صاحب کے مرزاقادیانی کو الگ کر کے پھر باقی تیرہ صدیوں کے) کل صلحاء مع صحابہ کبار، کل محدثین یہ سب آنحضرتﷺ کو دنیا کے لئے لعنت خیال کرتے تھے اور کیا واقعی یہ لوگ نعوذ باﷲ من ذلک لعنتی مردود تھے۔ وہ صحابی جن کو کہاگیا۔ ’’انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی (بخاری ج۲ ص۶۳۳)‘‘ وہ جس کو کہاگیا ’’لو کان بعدی نبی لکان عمر (ترمذی ج۱ ص۲۰۹)‘‘ وہ اپنے دلوں میں کیا یہ نہ سمجھتے تھے کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبی نہیں ہوسکتا۔ اگر سمجھتے تھے کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبی نہیں ہوسکتا؟ تو میاں صاحب کی کسوٹی پر وہ کیا ہوئے اور پھر جس نے یہ لفظ کہے وہ میاں صاحب کے نزدیک کیا ہوا؟ افسوس کہ دین کو بچوں کا کھیل بنالیا گیا۔ ختم نبوت کا مسئلہ وہ ہے جس پر امت کا اجماع ہے۔ آنحضرتﷺ کے بعد نبی کا آنا کسی نے نہیں مانا اور پھر میں پوچھتا ہوں کہ جس صورت میں میاں صاحب یہ بھی مانتے ہیں کہ اس امت میں نبی کا نام پانے کے لئے صرف مسیح موعود ہی مخصوص ہوئے تو اب ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے بعد اگر کوئی نبی ہو تو یہ خصوصیت بھی جاتی رہی۔ اگر ایک رسول آپ کے بعد آگیا جو اس زمانے میں قیامت تک ممتد ہے نہ آنے کے برابر ہے اور پھر وہ قرآن جس کے بعد کوئی کتاب نہیں وہ اسی اعتراض کے ماتحت نہیں۔ جس کے ماتحت آنحضرتﷺ آخری نبی ہونے کی وجہ سے ہیں۔ کیا قرآن دنیا کے لئے عذاب ہے۔ جو اس کے بعد کوئی کتاب نہیں۔‘‘
(النبوۃ فی الاسلام حاشیہ ص۱۰۵تا۱۰۷)