کلاب متعددۃ‘‘ کے یہی معنے اور مطلب ہے تو مرزاقادیانی کو اس مطلب کا پتہ کیوں نہ ہوا؟ وہ اس کے بعد بھی مرنے تک محمدی بیگم محمدی بیگم کرتے رہے اور زور دیتے رہے کہ اس کا خاوند ضرور مرے گا۔ وہ میرے نکاح میں ضرور آئے گی۔ ضرور آئے گی۔ پس ہم یہی ایک سوال کرتے ہیں کہ اس آپ کی حیلہ سازی کے معنوں کو مرزاقادیانی نے کیوں نہ سمجھا۔ ورنہ ان کی جان آرام سے نکلتی اور ان کی روح جاتی ہوئی نہایت حسرت وارمان سے یہ نہ کہتی کہ ؎
محفل سے تیری داغ جگر لے کے چلے ہیں
کیا خوب محبت کا ثمر لے کے چلے ہیں۲۱… قادیان میں ایک شخص مرزاگل محمد ہیں۔ جو مرزاقادیانی کے رشتہ دار قریبی ہیں۔ مرزاقادیانی نے جس وقت یہ دوکانداری شروع کی تو مرزاگل محمد کے مورث لوگوں نے کچھ صداقت کی بناء پر رکاوٹیں کیں۔ اس پر کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے یہ پیش گوئی کی اور بددعا کی کہ مرزاگل محمد کی نسل قطع ہو جاوے گی۔ کچھ عرصہ اتفاق بھی ایسا ہوا کہ مرزاگل محمد کے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ پھر کیا تھا کہ مرزاقادیانی کی صداقت کے نعرے بلند ہوتے رہے۔
آخر مرزاگل محمد صاحب نے غالباً ۱۹۳۳ء میں اور نئی شادی کی، بیوی سے ایک لڑکا پیدا ہوگیا۔ اب ہم مریدان مخلصین نے اس بات پر خلیفہ صاحب سے کچھ اس کے متعلق سوال کئے کہ کیا بن گیا؟ اور ان کی طرف سے جو جواب ملا میں اپنی شرافت کی بنا پر اس کو تو یہاں نہیں لکھتا۔ ہمارے ناظرین! مرزائیوں سے اس بات کے متعلق ضرور سوال کیا کریں کہ کیا حال ہے؟
مرزائی لوگ مولوی محمد حسین بٹالوی کا وہ ریویو جو انہوں نے ’’براہین احمدیہ‘‘ پر کیا تھا۔ ہمیشہ پیش کیا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو یہ ہمارے سخت مخالف کی مرزاقادیانی کے متعلق رائے ہے۔ اب مرزاقادیانی کس طرح جھوٹے رہ سکتے ہیں۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ بات مرزائیوں کی بالکل غلط ہے کہ جس وقت مولوی صاحب نے یہ ’’ریویو‘‘ کیا تھا۔ اس وقت مولوی صاحب مرزاقادیانی کے خلاف تھے۔ بلکہ مرزاقادیانی نے اپنی خاص باریک حکمت کے ساتھ مولوی صاحب موصوف کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو بھی اپنے دامن تزویر میں اپنے ساتھ رکھا تھا اور مولوی صاحب اپنی سادگی کی بناء پر مرزاقادیانی کے ساتھ پہلے حصہ دار ہی بنے تھے اور اس وقت براہین کا زمانہ تھا۔ مولوی صاحب کی بہت سی مدد براہین لکھنے میں صرف ہوئی۔ یعنی مرزاقادیانی نے مولوی صاحب موصوف اور دیگر علماء جو ساتھی تھے ان سے مل کر یہ کتاب لکھی تھی۔ یہ بات بہت بڑی تفصیل چاہتی ہے۔