۔ مگر پھر انہوں نے اس کو غلطی نہ رہنے دیا۔ بلکہ اس سے پہلے تو وہ کہتے تھے کہ ’’محمدی بیگم‘‘ کنواری سے میرا نکاح ہوگا۔ پھر یہ کہ بیوہ ہو کر میرے نکاح میں آئے گی اور اس کے متعلق قادیانی لوگ کہتے ہیں کہ یہ پیش گوئی مشروط ہے۔ تین شرطوں سے اوّل یہ کہ ’’مرزااحمد بیگ‘‘ ہوشیار پوری والد محمدی بیگم مرے گا۔ پھر اس کا خاوند ’’سلطان محمد آف پٹی‘‘ مرے گا۔ اس کے بعد وہ بیوہ ہوکر میرے نکاح میں آئے گی۔ پس چونکہ ’’سلطان محمد‘‘ نہیں مرا اور نہ وہ بیوہ ہوئی۔ نہ نکاح میں آئی۔
ناظرین! یہ قادیانیوں کی چالیں ہیں۔ مرزاقادیانی کا اس بات پر بہت زور ہے کہ ’’مرزاسلطان محمد خاوند محمدی بیگم‘‘ ضرور مرے گا۔ خدا نے مجھے کہا ہے کہ: ’’الحق من ربک فلا تمترن‘‘ کہ سلطان محمد کا مرنا اور محمدی بیگم کا میرے نکاح میں آنا تقدیر مبرم ہے۔ یہ کبھی نہیں ٹل سکتی۔ وہ ضرور مرے گا اور وہ ضرور میرے نکاح میں آئے گی۔ قادیانی دوست اپنے نئے دلائل سے ایک جدید جواب دیا کرتے ہیں۔ اس وقت ہمارا محمدی بیگم کے متعلق مفصل واقعات پر بحث کرنے کا ارادہ نہیں۔ صرف اس جواب پر غور کرنے کا ہے جو آج کل مرزائی دیتے ہیں۔ اس بحث کو مرزاقادیانی نے کئی جگہ لکھا ہے اور جماعت مرزائیہ کے لٹریچر میں اس کی مبسوط ابحاث ملتی ہیں۔ مرزاقادیانی نے خصوصیت سے ’’آئینہ کمالات اسلام اور انجام آتھم‘‘ وغیرہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ لیکن قادیانی دوست جو جواب دیتے ہیں۔ وہ یہ ہے۔ مرزاقادیانی نے اس پیش گوئی کو تین شرطوں سے مشروط کیا تھا۔
اوّل احمد بیگ کی موت۔
دوم سلطان محمد کی موت۔
پھر محمدی بیگم کا بیوہ ہوکر نکاح میں آنا۔
اس میں صرف احمد بیگ جو بوڑھا آدمی تھا۔ اپنے وقت پر بموجب تقدیر وقضا فوت ہوا۔ اس کے بعد سلطان محمد کی باری تھی۔ وہ نہ مرا۔ محمدی بیگم بیوہ نہ ہوئی، نہ نکاح میں آئی۔ اس پر جب اعتراض ہوا تو قادیانیوں نے ایک اشتہار کا حوالہ دے کر مرزاقادیانی کا ایک الہام پیش کر دیا وہ یہ ہے۔ ’’یموت ویبقی منہ کلاب متعددۃ‘‘ کہ صرف ایک مرے گا اور باقی لوگ کتوں کی طرح بھونکتے رہ جائیں گے۔ پس ایک (احمد بیگ) مرگیا اور باقی چونکہ کتوں کی طرح لوگوں نے بھونکنا تھا۔ اس لئے وہ باقی حصہ پورا نہ ہوا۔ تاکہ مرزاقادیانی کا یہ الہام پورا ہو۔ اگر یہ پیش گوئی ساری پوری ہو جاتی تو پھر لوگوں کو کوئی اعتراض ہی نہ ہوتا۔ پھر بھونکنا جھوٹ ہو جاتا۔
ہمیں اس بات پر ایک اعتراض ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر واقعی ’’یموت ویبقی منہ