پس اس صورت میں مولوی صاحب کا ریویو کرنا کیوں مرزائیوں کے لئے ایک تعجب کی بات ہے؟ پھر جب مولوی صاحب نے مرزاقادیانی کی ساری چال کو سمجھا کہ یہ اسلام اور ایمان کے برخلاف ہے تو مولوی صاحب ان سے ہٹ گئے، اور یہی ایمانداری ہوتی ہے کہ جب خدا اور رسول کے خلاف کوئی معاملہ نظر آوے تو اس سے نفرت کی جاوے۔ مولوی صاحب کی حد سے زیادہ ایمانداری اس میں ثابت ہوئی۔ ایسے ہی اور مرزاقادیانی کے ساتھی علماء کا بھی ذکر کرتے۔ مگر تفصیل کی گنجائش نہیں۔ صرف ایک دلیل کے طور پر حوالہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مرحوم کے متعلق مرزاقادیانی کی کتاب سے پیش کرتے ہیں۔
’’ہمارے دوست مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ میں عقلی طور پر حیات مسیح کو ثابت کر دکھاؤں گا۔ مگر کچھ معلوم نہ ہوا کہ مولوی صاحب کی عقلی طور سے کیا مراد ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۶۳، خزائن ج۳ ص۳۴۸)
پس اس حوالہ سے صاف ثابت ہے کہ مولوی صاحب پہلے مرزاقادیانی کی چال میں پھنس چکے تھے۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ: ’’رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ براہین احمدیہ کے بعد پھر کوئی کتاب مرزاقادیانی کی علمی مذاق کا نشان نہیں رکھتی۔ کیونکہ اس میں ان علماء کی قابلیت کا حصہ نہیں ہے۔ بالآخر میں خلیفہ قادیان کو کھلا چیلنج کرتا ہوں کہ اگر کوئی ان کے پاس میرے سوالات اور تشریحات کا جواب ہے تو دیں اور میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اگر ’’محمدی بیگم‘‘ سے نکاح بھی ہوجاتا اور مولوی ثناء اﷲ امرتسریؒ خدانخواستہ مرزاقادیانی سے پہلے فوت ہو جاتے تو بھی مرزاقادیانی سچے نبی نہ تھے اور ان کے بعد موجودہ خلیفہ کے متعلق میں حلفاً کہتا ہوں کہ یہ ایک سیاسی چال کا آدمی ہے۔مذہب اور روحانیت کو انہوں نے حصول سیاست کا آلہ بنایا ہوا ہے۔ حقیقت بالکل نہیں ہے۔
میں نے یہ باتیں اس جماعت میں سولہ سال رہ کر اپنے تجربہ کی بناء پر لکھی ہیں اور اکثر باتیں میں نے عمداً چھوڑ دی ہیں اور تاوقتیکہ میری متذکرۃ الصدور باتوں کا ان کی طرف سے انکار میں جواب نہ آئے۔ میں اگلی باتوں کے کھولنے پر مجبور نہیں ہوں گا۔ ’’وما توفیقی الا باﷲ، الیہ توکلت والیہ انیب واخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین‘‘
خاکسار: عبدالکریم ناقد!
سابق مبلغ جماعت مرزائیہ قادیان
پٹھان کوٹ مورخہ ۲۵؍اپریل ۱۹۳۶ء