اگر مرزاقادیانی نبی نہیں تھے تو مولوی محمد علی صاحب نے ان کو کس طرح نبی مان لیا اور اگر وہ تھے تو ۱۹۰۱ء میں تبدیلی دعویٰ کا کیا مطلب ہوا۔
یا پھر یہ بات ہے کہ مرزاقادیانی نبی تو تھے۔ مگر وہ خود اپنی نبوت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور مولوی محمد علی وغیرہ لوگ نبوت مرزاقادیانی پر ایمان رکھتے تھے۔ تو اس پر یہ اعتراض ہے کہ نبی تو اپنے دعویٰ اور وحی پر اوّل المؤمنین ہوتا ہے۔ مگر مرزاقادیانی اوّل الکافرین ثابت ہوئے اور مولوی محمد علی وغیرہ ہی مؤمن رہ سکتے ہیں۔ مرزاقادیانی کا تو پھر کوئی ٹھکانہ ہی نہیں۔ کیا اس کا جواب ملے گا؟
۱۹… مرزاقادیانی کی پیش گوئیاں جب پوری نہ ہوئیں تو اس پر علماء اور عوام نے اعتراضات کئے کہ اگر آپ سچے ہوتے تو آپ کی پیش گوئیاں کیوں نہ پوری ہوتیں۔ اس کے جواب میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’بائبل میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چار سو نبی کو شیطانی الہام ہوا تھا اور انہوں نے الہام کے ذریعہ سے جو ایک سفید جن کا کرتب تھا ایک بادشاہ کی فتح کی پیش گوئی کی۔ آخر وہ بادشاہ بڑی ذلت سے اسی لڑائی میں مارا گیا اور بڑی شکست ہوئی۔‘‘
(ضرورت الامام ص۱۷، خزائن ج۱۳ ص۴۸۸)
اب ناظرین خود انصاف کریں کہ مرزاقادیانی پر جائز اعتراض کرنا بھی اتنا مشکل ہے کہ وہ فوراً جواب میں ایک اعتراض کے بدلے چار سو نبی کو جھوٹا شیطانی الہام پانے والے قرار دے کر مسلمانوں کے احساس کو سخت مجروح کر دیتے ہیں۔ اچھا اگر اب بھی نہ وہ سمجھے تو اس بت سے خدا سمجھے۔
اسی کتاب کے (ص۱۶، خزائن ج۱۳ ص۴۸۶) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ظاہر ہے کہ شیطان ایسی طرز سے آیا ہوگا۔ جیسا کہ جبرائیل پیغمبروں کے پاس آتا ہے۔‘‘ کیا ہی کہنا مرزاقادیانی کی روحانیت کا کہ حضرت جبرائیل کو شیطان سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مگر اپنا مطلب فوت نہیں ہونے دیتے۔
پھر ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ ؎
ہوا تھا کبھی سر قلم قاصدوں کا
یہ تیرے زمانے میں دستور نکلا
۲۰… ایک پیش گوئی مرزاقادیانی نے ’’محمدی بیگم‘‘ کے متعلق کی تھی۔ جس کی تفاصیل کی ہم اس جگہ میں گنجائش نہیں پاتے۔ صرف اتنا کہ مرزاقادیانی نے زور دیا ہے کہ یہ میری پیش گوئی ضرور پوری ہوگی اور اگر یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی تو سمجھو کہ میں جھوٹا ہوں۔ اس کے متعلق وہ یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ شاید مجھے اس الہام کے سمجھنے میں غلطی ہوگئی ہو۔