اس پر اگر علماء کرام مرزاقادیانی کو فتویٰ کفر لگائیں تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ تکفیر پہلے علماء اسلام نے کی ہے۔ حالانکہ جس شخص کی تحریک سے کوئی جرم پیدا ہوتا ہے۔ اصل مجرم وہ ہوتا ہے۔ بہرحال یہ دورنگی مذہب کے پردہ میں سیاست طلبی ہے اور کچھ نہیں۔
۱۷… کسی نبی نے کبھی اپنے الہامی دعویٰ میں تبدیلی نہیں کی اور مرزاقادیانی کا تو کیا ہی کہنا ہے۔ ان کا تو کوئی ایک لفظ ایسا نہیں جو دوسری جگہ نقیض نہ بن پڑے۔ چنانچہ قادیانیوں کا مشہور عقیدہ ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنے دعویٰ نبوت میں ۱۹۰۱ء میں تبدیلی کی۔ اس پر جب اعتراض ہوتا ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریمﷺ نے بھی تبدیلی دعویٰ کی۔ جیسا کہ انہوں نے پہلے ایک حدیث میں فرمایا کہ: ’’لا تفضلوا نی علیٰ یونس ابن متیٰ‘‘ کہ مجھے یونس ابن متیٰ پر فضیلت نہ دو! اور جب وہ سب سے افضل ہوگئے تو فرمایا کہ: ’’انا سید ولد ادم‘‘ کہ میں تمام بنی آدم سے افضل ہوں۔
یہ جواب جو ہم ذیل میں درج کریں گے۔ قادیانی خلیفہ کی پوزیشن کے پیش نظر نہیں بلکہ رسول پاکﷺ پر جب بہتان طرازی ہوتی ہے تو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ مختصراً اس کی تشریح کر دیتے ہیں۔
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ رسول پاکﷺ پہلے افضل نہ تھے۔ بلکہ وہ تو قدیم ہی سے افضل تھے اس موقع پر اس حدیث کے بیان کرنے کا یہ مدعا تھا کہ حضرت یونس علیہ السلام نے ایک غلطی اپنے زمانہ میں کی تھی۔ جس کو قرآن کریم غلطی قرار دیتا ہے اور جب رسول کریم کے زمانہ میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر ہوتا تو لوگ رسول پاکﷺ کو کہتے کہ حضورﷺ آپ بالکل معصوم ہیں اور حضرت یونس علیہ السلام نے فلاں غلطی کی تھی۔ اس لئے آپ ان سے افضل ہیں۔ رسول پاکﷺ نے مصلحت پائی کہ جب یونس علیہ السلام کے مقابلہ میں مجھے افضل کہا جاتا ہے تو حضرت یونس علیہ السلام کا گناہ لوگوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ایک نبی کے متعلق لوگوں میں بدظنی پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ یونس علیہ السلام کے مقابلہ میں مجھے افضل نہ کہا کرو۔ یعنی تاکہ یونس علیہ السلام کی غلطی مشہور نہ ہوتی رہے اور نبی کے متعلق کسی کے دل میں ذرہ بھر بھی نفرت نہ ہو۔ تاکہ لوگوں کی روحانی زندگی خراب نہ ہو۔ پس یہ مطلب ہے اس حدیث کا ورنہ رسول پاکؐ نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ بلکہ وہ پہلے ہی سے افضل تھے۔
۱۸… قادیانی لوگ کہا کرتے ہیں کہ مولوی محمد علی وغیرہ صاحبان اوائل میں مرزاقادیانی کو نبی اﷲ کہا کرتے تھے۔ مگر مرزاقادیانی اپنے آپ کو نبی نہیں مانتے تھے۔ یہ عجیب قسم کی توجیہ ہے کہ