غیرمبایعین (مرزاغلام احمد قادیانی کے وہ امتی جنہوں نے حکیم نورالدین کی وفات کے بعد مرزامحمود کی بیعت نہیں کی) ان کے چھوٹے اور بڑے ۱۹۱۴ء تک یہی عقیدہ رکھتے تھے اور اسی کا اعلان کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) فی الواقع اﷲتعالیٰ کے برحق نبی ہیں۔ ۱۹۰۸ء سے لے کر ۱۹۱۴ء تک وہ یہ بھی مانتے تھے کہ نورالدین واقعی طور پر خلیفۃ المسیح الاوّل ہیں۔ ان لوگوں میں جو تغیر آیا۔ انہوں نے اپنا جو مسلک بدلا عقائد میں جو تبدیلی کی وہ سب بعد کی پیداوار ہے۔ اس کا سبب اور باعث کیا ہے۔ اس کا جواب اگلے مضمون میں ملاحظہ فرمائیں۔‘‘
(الفرقان مئی، جون ۱۹۶۵ئ)
الفرقان ربوہ کی ان پیش کردہ تفصیلات کے سامنے آنے کے بعد کوئی بھی دیانتدار شخص حسب ذیل حقائق سے انکار کی جرأت نہیں کر سکتا۔
۱… مرزاغلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت کیا اور ہر چند کہ انہوں نے دجل وتلبیس سے بھی کام لیا اور کہہ مکرنی کی متعدد مکروہ مثالیں بھی پیش کیں۔ تاہم ان کا دعویٰ نبوت غیرمبہم،واصح دوٹوک اور اپنے تمام تقاضوں سمیت تھا اور ان تقاضوں میں سے اولین دواہم تقاضے یعنی ماننے والے مرزاغلام احمد کے امتی اور نہ ماننے والے کافر ودائرہ اسلام سے خارج کی وضاحت بھی انہوں نے خود ہی کی۔
۲… مرزاغلام احمد قادیانی کی امت کے تمام اکابر جن میں حکیم نورالدین، مرزامحمود اور دوسرے تمام افراد شامل تھے۔ سب کے سب مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی مانتے تھے۔
۳… قادیانیوں کے لاہوری فرقے یا انجمن احمدیہ اشاعت اسلام کے تمام مؤسسین ومؤیدین ۱۹۱۴ء تک کھلم کھلا اسی عقیدے کے مبلغ وداعی تھے۔ لیکن جب مرزاغلام احمد قادیانی کے فرزند مرزامحمود کے ہاتھوں انہوں نے سیاسی شکست کھائی تو انہوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت اور مسلمانوں کی تکفیر سے بریت کا اعلان کیا۔ جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ قادیانیوں سے الگ ہوکر مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کریں۔ مگر چونکہ وہ مرزاغلام احمد قادیانی کی مہدویت، مسیحیت اور مجددیت کے پردے میں ان کے تمام دعاوی کو مانتے، ان کی تحریروں کو شائع کرتے اور ان پر ایمان کی دعوت دیتے تھے۔ اس لئے وہ نہ تو مسلمانوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی وہ قادیانی جماعت میں کوئی اہم قسم کی افراتفری مچا سکے۔