پڑھ دیں گے۔ محمد امین مجاہد بخاری کا جنازہ خلیفہ صاحب نے کیوں نہیں پڑھا تھا۔ مولوی سرور شاہ کو کیوں بھیج دیا تھا۔ ہم یقینا لکھتے ہیں کہ اس کا جنازہ خلیفہ صاحب کے نزدیک جائز نہیں تھا۔ مولوی سرور شاہ کو بھی اس لئے بھیج دیا تھا کہ مخفی راز ظاہر نہ ہو جاوے اور بات جو اصل تھی وہ دبی رہے۔
اگر کہیں کہ دوسرے تو غیراحمدی ہیں۔ محمد علی بہرحال احمدی تھا۔ اس کے سچ بولنے سے یہ بات بنتی تھی۔ غیر احمدی کے ایسا کرنے سے نہیں بنتی۔ تو پھر یہ عرض ہے کہ بموجب تعلیم کشتی نوح خاص محمد علی نے جس وقت قتل کیا تو اسی وقت احمدیت سے تو نکل چکا تھا۔ باقی سوال وہی رہ جاتا ہے؟ پھر اگر سچ بولنے سے جنازہ جائز ہو جاتا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے جب براہین احمدیہ پر ریویو لکھا تھا تو کیا انہوں نے سچ نہیں لکھا تھا۔ اگر سچ لکھا تھا تو پھر وہ کیوں کافر ٹھہرے؟
ان کا جنازہ ناجائز ٹھہرا اور اگر سچ بولنے سے ہی جنازہ جائز ہوتا ہے تو خلیفہ قادیان کا جنازہ تو بالکل جائز نہیں ہوگا۔ کیونکہ انہوں نے کسی ذاتی مقدمہ میں نہیں بلکہ ایک معمولی شہادت میں جو سید عطاء اﷲ شاہ بخاری امیر شریعتؒ کے مقدمہ گورداسپور میں ہوئی تھی۔ خلیفہ صاحب نے کئی ٹھوس جھوٹ کہے تھے۔ جن کو میں نے بحیثیت ان کا مخلص مرید ہونے کے اسی وقت ان پر ظاہر کیا تھا۔ مثلاً اسٹامپ فارم وغیرہ کا علم نہ ہوتا۔ مگر جی خلیفہ صاحب کو سچ جھوٹ کی کیا پرواہ ہے۔ ان کو تو ؎
زن نوکن اے خواجہ ہر نوبہار
کہ تقویم پاریں نہ آئید بکار
۱۲… قادیانی لوگ وفات حضرت مسیح ناصری کی دلیل میں ’’فلما توفیتنی‘‘ آیت پیش کر کے ایک حدیث بھی اسی قسم کی بیان کیا کرتے ہیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ قیامت کے دن رسول کریمﷺ کے بعض صحابہؓ کو دوزخ کی طرف لے جایا جائے گا۔ تو رسول کریمﷺ کہیں گے کہ یہ تو میرے صحابہؓ ہیں تو ان کو جواب میں کہا جائے گا کہ تجھے معلوم ہے کہ تیرے بعد انہوں نے کیا کیا بدعات کی تھیں۔ تو رسول کریمﷺ نے فرمایا میں بھی اسی طرح کچھ کہوں گا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہہ چکے ہوںگے اور وہاں عربی الفاظ یہ ’’اقول کما قال عبدالصالح فلما توفیتنی وغیرہ‘‘
پس رسول کریمﷺ فرماتے ہیں کہ: ’’اقول کما قال عبدالصالح فلما توفیتنی وغیرہ‘‘ اب غور کرنا چاہئے کہ مرزاقادیانی کے مرید ’’فلما توفیتنی‘‘ کو اقول کا مقولہ قرار دے کر اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں۔ مگر حقیقتاً کما کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ توفیتنی