موت بھی اسی نوع کی ہے۔ لوگوں کو جلا وطن کیا جاتا ہے۔
قاضی محمد علی مرزائی، عبدالکریم آف مباہلہ کو قتل کرنے کے لئے مقرر ہوتا ہے اور بٹالہ میں وہ مستری محمد حسین صاحب بٹالوی کو شہید کر کے پکڑا جاتا ہے اور اس کو سزا موت عدالت دیتی ہے۔ تو ولایت تک اس کو چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ محض اس لئے کہ اس نے خلیفہ کو جائز طور پر مباہلہ کا چیلنج دیا تھا۔ جس کی وجہ سے دوسری موت بھی ہوئی اور پھر محمد علی مطلوب کا جنازہ خود خلیفہ صاحب پڑھاتے ہیں۔ کیونکہ وہ خلیفہ صاحب کے لئے ہی مرا تھا۔
اس کے بعد شعرا قادیان محمد علی یوم منا کر اس پر ایک مشاعرہ کرنے کی تجویز کرتے ہیں اور خلیفہ صاحب سے اس مشاعرہ کی اجازت مانگتے ہیں کہ محمد علی کے متعلق اس میں نظمیں ہوں گی۔ خلیفۂ قادیان اس کا جواب ’’اخبار الفضل‘‘ میں لکھواتے ہیں کہ محمد علی کے متعلق نظمیں پڑھنے کی اجازت ہے۔ لیکن نظمیں مرثیہ کے رنگ میں نہ ہوں۔ کیونکہ مرثیہ خوانی سے قوم کے نوجوانوں کی سپرٹ ماری جاتی ہے۔
ناظرین کرام! کیا اس سے صاف ظاہر نہیں کہ خلیفہ صاحب محمد علی کی سی سپرٹ جس سے ناحق دوسروں کو محض خلیفہ پر اعتراض کرنے کی وجہ سے قتل کیا جاتا ہے۔ قوم کے نوجوانوں میں باقی رکھنا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ خلیفہ صاحب کا دوسرے لفظوں میں یہ منشاء ہے کہ جو مجھ پر اعتراض کرے اس کو قتل کر دینا چاہئے۔
۱۰… حضرات باتیں تو بہت ہیں۔ مگر گنجائش اندراج نہیں۔ امید ہے خدا کے فضل نے یاوری کی تو دوسرے حصہ میں درج کروں گا ؎
غم دنیا فراوانست ومن یک غنچۂ دل دارم
چساں درشیشہ ساعت کنم خاک بیاباں را
۱۰… پھر مزے کی بات یہ ہے کہ مرزاقادیانی ’’کشتی نوح‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میرا مرید وہ ہے جس کی زبان، ہاتھ، کان، آنکھ چلنے پھرنے وغیرہ سے کسی بنی نوع انسان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔ لیکن قادیان کے پسماندگان کی حالت کا کسی قدر نمونہ ہم پیش خدمت کر چکے ہیں۔
پھر خلیفہ صاحب نے ظاہر کیا کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ قاضی محمد علی کا جنازہ پڑھا ہے۔ سو جواباً وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس لئے نہیں پڑھا کہ وہ میرے لئے مرا ہے۔ بلکہ اس لئے پڑھا ہے کہ اس نے جھوٹ نہیں بولا اور مقدمہ میں سچ بولتا رہا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اگر کوئی فاسق، فاجر، زانی، راہزن، غیراحمدی مقدمہ میں سچ بول دے تو اس کا بھی جنازہ جائز ہے اور خلیفہ صاحب