ناظرین کرام! مرزاقادیانی کے خلیفہ ثانی کی دو کتابوں سے ہم مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کا زمانہ ان کے الفاظ میں پیش کر چکے ہیں۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
پس جب مرزاقادیانی کا بقول ان کے خلیفہ کے دعویٰ نبوت ۱۹۰۲ء کا ثابت ہوا تو اب دیکھئے مرزاقادیانی ۱۹۰۸ء میں فوت ہوگئے۔ دعوت نبوت سے سات سال بنتے ہیں۔ یعنی ۱۹۰۲ء میں دعویٰ کیا اور ۱۹۰۸ء میں فوت ہوگئے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی اپنے دعویٰ کے بعد سات سال تک زندہ رہے ہیں۔ کیونکہ ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۸ء تک ۷سال بنتے ہیں۔
پس مرزائیوں کے پیش کردہ معیار پر بھی مرزاقادیانی سچے معلوم نہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ دعویٰ کے بعد ۲۳سال نہیں بلکہ سات سال زندہ رہے ہیں۔ قادیانی دوستو! کیا کوئی تم میں ہے جو سچائی کو قبول کرے اور خلیفہ صاحب کی من گھڑت روز کی باتوں کی اب انتظاری نہ کرے۔
۹… مرزاقادیانی نے ایک الہام بیان کیا۔ وہ یہ ہے کہ: ’’یاتیک من کل فج عمیق ویاتون من کل فج عمیق‘‘ کہ تیرے پاس قادیان میں دور دراز ملکوں سے دنیا آئے گی اور جن راہوں سے وہ آئے گی وہ راستے ٹوٹ جائیں گے۔ گویا یہ مرزاقادیانی کی سچائی کا نشان ہوگا۔
پھر لکھتے ہیں۔ زمین قادیان اب محترم ہے، ہجوم خلق سے ارض پس آپ کا (مرزاقادیانی) حرم ہے۔ پھر لکھتے ہیں۔ آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے۔ لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے وغیرہ، وغیرہ! جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی لوگوں کا قادیان میں آنا اپنی صداقت کا نشان بتاتے ہیں۔
لیکن افسوس ہے کہ احرار کانفرنس میں شمولیت کے لئے دور دور سے لوگ آئے اور قادیان میں اس پیش گوئی کے مطابق پہنچ گئے۔ مگر ان کے پانی بند کئے گئے۔ ان پر مقدمات چلائے۔ ان سے مقابلہ اور لڑائی جھگڑا کرنے کے لئے خفیہ آدمی بھیج کر باہر سے لوگوں کو بلایا جاتا رہا۔
ہم قادیانی دوستوں سے پوچھتے ہیں کہ ان افعال سے آپ نے مرزاقادیانی کے نشان کی تذلیل وتحقیر کا ارتکاب کیوں کیا؟ اس ہجوم خلق سے تو قادیان کا ارض حرم ہونا ثابت ہونا تھا۔ قرآن کریم نے ارض حرم کی تعریف فرمائی ہے کہ ’’من دخلہ کان اٰمنا‘‘ جو کہ مکہ معظمہ وغیرہ حرم میں داخل ہوگا وہ امن میں آجاوے گا۔ مگر تحصیل بٹالہ کے ارض حرم کی یہ حالت ہے کہ مسلمان وہاں تبلیغی جلسہ کرتے ہیں اور مولوی ثناء اﷲ امرتسری وغیرہ حضرات پر لٹھوں سے حملہ کیا جاتا ہے اور ان کو سخت ترین خطرہ میں ڈالنے کی ٹھانی جاتی ہے۔ مباہلہ بلڈنگ کو دن دیہاڑے جلایا جاتا ہے۔ عبدالکریم آف مباہلہ وغیرہ وغیرہ کے لئے قاتل مقرر ہوتے ہیں۔ محمد امین مجاہد بخارا کی