والی حدیث تو ہم اوپر درج بھی کر چکے ۔ وغیرہ وغیرہ! تو اب ہم حیران ہیں کہ مرزاقادیانی ہر بات کا اقرار بھی کرتے ہیں انکار بھی ؎
زاہداں کو جلوہ برمحراب وممبر مے کنند
چوں خلوت مے روند آں کار دیگر مے کنند
۷… مرزاقادیانی نے اپنے دعویٰ کی تائید میں آیت ’’قد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون‘‘ پیش کیا کرتے ہیں۔ (تریاق القلوب ص۱۵۴، خزائن ج۱۵ ص۲۸۲)
اور لکھتے ہیں کہ: ’’دیکھو میں ایک طویل عمر تمہارے سامنے رہا ہوں۔ میں نے کبھی کسی پر افتراء کیا ہے۔ جواب خدا پر بھی کرتا۔‘‘
اس آیت کے شروع میں مرزائی مبلغ یہ بات مانا کرتے ہیں کہ نبی کی سابقہ زندگی پاکیزہ ہو اور نبی پہلی زندگی میں گمنام نہ ہو۔ بلکہ مشہور ہو۔ کیونکہ اگر کوئی شخص چالیس برس گوشۂ گمنامی میں ہے تو لوگوں کو کیا علم ہے کہ اس کی زندگی کیسی گزری ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ وہ شخص مشہور عام ہو۔
آؤ ہم اس معیار پر مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کو دیکھیں۔ مرزاقادیانی خود لکھتے ہیں کہ ؎میں تھا غریب بے کس وگمنام بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا ہے قادیاں کدھر
لوگوں کی اس طرف کو ذرہ بھی نظر نہ تھی
میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی
(درثمین اردو)
ان اشعار سے ثابت ہے کہ مرزاقادیانی کا وجود گمنام تھا اور اس کی کسی کو خبر نہ تھی۔ پس مرزاقادیانی کی سابقہ چالیس سالہ زندگی کا کوئی علم کسی کو نہیں کہ کیسی تھی یا کیسی نہیں تھی۔ مگر ہاں ان کے خیالات بڑھاپے میں جو تھے ان کی کوئی تمثیل ان کی کتب میں ملتی ہے۔ منجملہ ان کے ایک ’’محمدی بیگم‘‘ کے متعلق مرزاقادیانی کا خواہش نکاح وغیرہ رکھنا اور بوقت مرگ بھی اس حسرت کو دل سے نہ نکالنا۔ اگر اس وقت بھی کوئی خیال دلمیں پیدا ہوتا تو نہ دین کا نہ خدا کو خوش کرنے کا بلکہ محمدی بیگم کا ہی خیال پیدا ہونا صاف ظاہر کرتا ہے کہ مرزاقادیانی کی سابقہ جوانی کی عمر کا کیا حال تھا۔ ان کی سابقہ زندگی پر اس سے زیادہ اور کیا دلیل ہوسکتی ہے۔
کھنڈر بتا رہا ہے کہ بلڈنگ نفیس تھی