ہم اس کے مفصل جواب کی اس جگہ گنجائش نہیں پاتے۔ صرف اتنی عرض کرتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے بحیثیت مسیح موعود جس منارہ پر اترنا تھا۔ اس کو تو مرزاقادیانی اپنی زندگی میں مکمل کر نہ سکے تو اور کون سی کامیابی تھی۔ جو مرزاقادیانی کو نصیب ہوئی اور اگر ’’محمدی بیگم‘‘ سے نکاح کرنے میں کامیابی ہوگئی ہو تو ہم کہہ نہیں سکتے مرزائی بہتر جانتے ہیں۔
اس کے جواب میں شاید قادیانی دوست یہ کہہ دیں کہ نبی ہمیشہ بیج ہی ڈال کر رخصت ہو جایا کرتے ہیں اور فصل بعد میں ہی ہوا کرتی ہے۔ اس لئے ضروری نہیں تھا کہ منارہ کو مرزاقادیانی ہی مکمل کر جاتے۔ اس تاویل پر اس جگہ یہ اعتراض ہے کہ:
پھر مرزائیوں کے پاس مرزاقادیانی کی کامیابی کی کون سی دلیل ہے؟ جس سے مرزاقادیانی کی کامیابی اور دوسروں کی ناکامی ثابت کر سکتے ہوں؟
پہلے سب جھوٹے مدعیان کا بھی یہی حال ہوتا رہا ہے۔ کیا ان امور کا کوئی جواب قادیانی دوست دیں گے۔ مرزاقادیانی نے باوجود تمام شرائط حج اپنے پاس پورا ہوتے ہوئے اور زرومال کافی رکھتے ہوئے حج نہ کیا۔ اس بات پر علماء اسلام نے بجا طور پر اعتراضات کئے۔ چنانچہ آج کل مرزائی دوست اس کے کئی جواب دے کر مرزاقادیانی کی پوزیشن کو صاف کرنے کی بے سود کوشش کیا کرتے ہیں۔ پس کہتے ہیں کہ:
۱… مرزاقادیانی نے حج بدل کرا دیا تھا۔
۲… مرزاقادیانی بیمار تھے۔
۳… مرزاقادیانی کو امن راہ حاصل نہ تھا۔
حالانکہ مرزاقادیانی کی پہلے یہ پیشین گوئی تھی کہ: ’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔‘‘ لیکن مسلمانوں کے معمولی سے رعب نے مرزاقادیانی کو پیش گوئی بھلا دی اور اب وہ طرح طرح کے مصالح گھڑتے پھرتے ہیں۔ ہمیں مرزائی صاحبان کے ان جوابات پر کچھ اعتراضات ہیں۔ امید ہے کہ وہ ٹھنڈے دل سے جواب دیں گے۔
اعتراض نمبر:۱
اگر مرزاقادیانی بیمار تھے تو یہ بھی ان کو حج کرنے کو مانع نہیں تھا۔ کیونکہ مرزاقادیانی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ: ’’میری حالت ایسی ہوگئی کہ میں بیوی کے قابل نہ رہا۔ حتیٰ کہ نامرد ہوگیا۔ میں نے اس خیال سے کہ میں نے شادی کرنی ہے اور حالت خراب ہے۔ کیاکیا جاوے۔ توجہ کی تو فرشتہ نے آکر میرے منہ میں دوائی ڈالی۔ جس سے میری حالت اچھی ہوگئی اور آگے چل کر لکھتے