… مرزاقادیانی تو صاف لکھتے ہیں کہ: ’’میری آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا ایک قسم کی ایک ناسمجھی ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۳۹، خزائن ج۵ ص۳۳۹)
۲… پھر لکھتے ہیں کہ ؎
ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بیشمار
(درثمین اردو)
۳… لکھتے ہیں ؎
اتعلم مفتریا کمثلی موید
ویقطع ربی کلما لا یثمر
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۴۸، خزائن ج۲۱ ص۳۱۲)
ترجمہ: کہ کوئی جھوٹا دنیامیں تلاش کر کے میرے ساتھ مقابلہ کرالو۔ اگر میرے جیسی کسی کی تائید ہوئی تو کہو۔ وغیرہ وغیرہ!
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جھوٹے لوگ اور مفتری علی اﷲ کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ مگر ایک میں ہی ہوں جو ان میں سے بقول خود کامیاب ہوا ہو۔ پس ایسی صاف صورت میں قادیانی دوست مرزاقادیانی کو سچا کس طرح قرار دے سکتے ہیں۔ جبکہ مرزاقادیانی مفتری اور کاذب لوگوں کے ساتھ آزمانا بھی صاف بیان فرماتے ہیں کہ مجھے مفتری لوگوں سے آزمالو۔ پس اگر انبیاء علیہم السلام کے ساتھ آزمانے سے مرزاقادیانی نبی ثابت ہوسکتے تھے تو اس کا تو مرزاقادیانی نے خود بھی ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں انکار کر دیا۔ اب وہی صورت ہے کہ وہ مفتری لوگوں کے ساتھ آزمانے کا ارشاد فرماتے۔ جس سے صاف نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مرزاقادیانی ویسے ہی تھے۔ بقول قادیانیاں:
اگر مرزاقادیانی نبی ہوتے تو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ اپنے آپ کو آزمانے سے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں انکار نہ کرتے اور اگر سچے ہوتے تو مفتری لوگوں سے اپنا مقابلہ تائید نہ کرتے۔
پس نتیجہ صاف ہے۔ ’’ہل فیکم من عبد رشید‘‘ چلو ہم اپنے سابقہ دوستوں کو خوش رکھنے کی غرض سے ان کی خواہش کے مطابق مرزاقادیانی کو قضیہ فرضیہ کے طور پر انبیاء سابقین علیہم السلام کی صداقت پر آزماتے ہیں۔ تاکہ مرزائی دوستوں کی تمنا باقی نہ رہ جاوے۔ امید ہے کہ وہ ہمارے سوالات کے جواب دے کر ممنون فرماویں گے۔