ایمانیات کی کوئی جزو ہو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۶۰، خزائن ج۲ ص۱۷۱)
پھر لکھتے ہیں کہ: ’’ہمارا اصولی جھگڑا مسلمانوں اور تمام دنیا سے صرف مسیح کی حیات ووفات کا عقیدہ پر ہے۔ باقی ہمارے جتنے جھگڑے ہیں وہ سب فرعی ہیں۔‘‘
اس مضمون سے مرزاقادیانی نے تمام اپنی کتابیں بھر رکھی ہیں۔ ہم اپنے ناظرین کی توجہ کو اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ باوجودیکہ حیات ووفات مسیح کا جھگڑا بقول مرزاقادیانی نہ جزو ایمان ہے نہ دین کارکن ہے۔
پھر مرزاقادیانی نے اپنی ساری کتابوں کو اسی سلسلہ سے بھر کر مسلمانوں میں تفرقہ ڈالا ہے اور جب نبوت جیسی ضروری چیز جس کے انکار سے کفر لازم آتا ہے۔ اس کو کاٹ دینے کے متعلق مرزاقادیانی لوگوں کو تاکید کرتے ہیں کہ میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتا۔ اس وجہ سے آپ میرے نام سے نبی کا لفظ کاٹ دیں تو اگر حیات ووفات مسیح کی بحث کو وہ چھوڑ کر مسلمانوں کے احساسات کا خیال کر لیتے تو کون سی بات تھی۔ جس کا چھوڑنا ایمانیات کو بھی مانع نہ تھا۔ مگر اصل بات وہی ہے جو میں باربار عرض کر آیا ہوں کہ ان قادیانیوں کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی عقیدہ رکھنا ہے یا نہیں۔ ان کا تو جس طرح کام چلے اسی طرح چلا لیتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس!
حضرت مسیح کی قبر کے متعلق اور دیگر کئی قسم کے اختلافات مرزاقادیانی اور ان کے پسماندگان کی زندگی میں ملتے ہیں۔ جن کی تعداد تو ہو نہیں سکتی۔ اگر ان کے انواع کی تعداد بھی شمار کی جاوے تو ممکن ہے کہ معرض تحریر میں آسکے۔ بہرحال ہمارا ارادہ ہے کہ ایک مستقل تالیف میں مرزاقادیانی اور ان کے خلیفہ کی رنگین بیانیاں ذکر کی جاویں۔ مگر اس سے عمداً بخوف طوالت احتراز ہے۔ اس جگہ مجھے ایک لطیفہ یاد پڑا جو اگر اپنے مناسب الفاظ میں لکھا جاتا تو خلاف تہذیب ہوگا اور تہذیب سے مراد ہماری اسلامی تہذیب ہے۔ مرزاقادیانی اور ان کے رفقاء کی تہذیب ہماری بحیثیت نہیں۔ وہ تو گالیاں دینا بھی قرآن سے ثابت کر دیتے ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہ قرآن گالیوں سے بھرا ہوا ہے، قرار دیتے ہیں۔ نعوذ باﷲ من ہذا الہفوات!
لطیفہ یہ ہے
کوئی مہاراجہ صاحب فوت ہوگئے اور ان کے ٹکہ صاحب ان کے جانشین ہوئے۔ ایک چالاک میراسی نے موقع غنیمت پاکر ایک ٹکہ صاحب سے عرض کی کہ سرکار مہاراجہ صاحب متوفی آج رات میری خواب میں آئے اور کہتے تھے کہ میری طرف سے ایک سو روپیہ دان میرے