کیا اور اگر وہ ایسا ثابت نہ کرسکیں کہ واقعی کوئی بات تھی۔ جس کی وجہ سے مجھ پر کوئی بوجھ پڑتا تھا اور اگر میں علیحدہ نہ ہوتا تو میں اس بوجھ اور تکلیف سے نہ بچ سکتا۔ تو پھر یاد رکھیں کہ مرزاقادیانی کا فتویٰ ان کے لئے موجود ہے۔ وہ ہم درج ذیل کئے دیتے ہیں۔
مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۱… ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۲۰ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۵۶)… ’’جھوٹ بولنے سے بدتر دنیا میں کوئی کام نہیں۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۲۶، خزائن ج۲۲ ص۴۵۹)
۳… ’’تکلف سے جھوٹ بولنا گوہ کھانا ہے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۸، خزائن ج۱۱ ص۳۴۳)
۴… ’’غلط بیانی اور بہتان طرازی راست بازں کا کام نہیں بلکہ شریر اور بدذات آدمیوں کا کام ہے۔‘‘ (آریہ دھرم ص۱۳، خزائن ج۱۰ ص۱۳)
اور ’’لعنت اﷲ علیٰ الکاذبین‘‘ ہماری طرف سے تحفہ ہے۔
اختلاف نمبر:۱۵
مرزاقادیانی (حمامتہ البشریٰ ص۱۳، خزائن ج۷ ص۱۹۱) پر لکھتے ہیں کہ: ’’مسیح کی وفات عدم نزول اور اپنی مسیحیت کے الہامات کو میں نے دس سال تک ملتوی رکھا۔ بلکہ رد کر دیا۔‘‘
پھر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے۔ اگر میں ایک یوم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جاوے۔ وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا۔ قطعی اور یقینی ہے اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ ص۲۰، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲)
ناظرین! یہ ہے حقیقت مرزاقادیانی کے ایمان اور یقین کی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ: ’’اگر میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں۔‘‘ اور دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ: ’’میں نے وفات مسیح کے عقیدہ کو ملتوی کر رکھا اور بلکہ رد کر دیا۔‘‘ اب صغریٰ کبریٰ بنا کر نتیجہ نکالئے۔ ہمیں تو آج منطق پڑھنی پڑ گئی ہے۔
اختلاف نمبر:۱۶
مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’چونکہ میرے متعلق لفظ نبی بولنے سے مسلمانوں میں تفرقہ پڑتا ہے۔ اس واسطے مجھے نبی نہ کہا کریں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۱۳)
’’اوّل تو یہ جاننا چاہئے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہماری