والی ہے۔‘‘ یہ تعریف مرزاقادیانی نے اس وقت کی تھی۔ جس وقت ڈاکٹر صاحب موصوف مرزاقادیانی کے مرید تھے اور پھر مرزاقادیانی کی چال سے واقف ہوکر علیحدہ ہو گئے تو پھر مرزاقادیانی نے اس تفسیر کے متعلق مندرجہ ذیل کروٹ بدلی۔ لکھتے ہیں کہ: ’’ڈاکٹر عبدالحکیم کا تقویٰ صحیح ہوتا تو وہ کبھی تفسیر لکھنے کا نام نہ لیتا۔ کیونکہ وہ اس کا اہل نہیں ہے۔ اس کی تفسیر میں ایک ذرہ روحانیت نہیں اور نہ ظاہری علم کا کچھ حصہ۔‘‘
(اخبار بدر قادیان مورخہ ۷؍جون ۱۹۰۶ئ، ملفوظات احمدیہ ج۸ ص۴۳۵،۴۳۷) اسی اخبار کے ص۳ پر لکھتے ہیں کہ: ’’میں نے اس کی تفسیر کو کبھی نہیں پڑھا۔‘‘ (ملفوظات ج۸ ص۴۳۵)
ناظرین! غور فرمائیں کہ اس تفسیر کو مرزاقادیانی نے پڑھا ہی نہیں تو پہلے اس کی تعریف کرنا اور پھر جب وہ علیحدہ ہو جاوے اور مرزاقادیانی کے عقیدہ وفات مسیح پر تف کرے تو اس وقت یہ لکھ دینا کہ وہ اس کا اہل ہی نہیں۔ یہ عجیب وغریب باتیں ہیں۔ میں بھی اپنے تجربہ کی بناء پر کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج کل بھی قادیانیوں کی یہی حالت ہے کہ جب وہ ہاں میں ہاں ملاتے رہیں تو پھر وہ جو کچھ چاہیں کریں۔ وہ سب روحانی کارگزاری قرار دی جاتی ہے اور اگر کوئی خلیفہ صاحب کے حالات پر اعتراض کر دے تو پھر وہی روحانی کارگزاری عیب سے تعبیر ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ میرے متعلق ’’ایڈیٹر الفضل‘‘ مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۳۶ء کو اکسا کر بعض ایسی جھوٹی باتیں لکھوائی گئی ہیں۔ جن کا ان کے پاس بالکل کوئی ثبوت نہیں اور میرے اس اعتراض پر آج تک قادیانیوں کے متعدد خطوط مجھے مل چکے ہیں۔ جن میں وہ صاف لکھتے ہیں کہ ہم بھی ایسی باتوں کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مگر آپ قادیان تشریف لے آویں تو آپ جو کچھ کہیں تردیداً لکھوا دیں گے اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہم نے ایڈیٹر الفضل کو روکا۔ مگر دفتر میں جانے سے پہلے مضمون نکل چکا تھا۔ اب بھی آپ قادیان تشریف لے آویں۔ وغیرہ!
مگر اخبار میں تردید نہیں کرتے۔ جس سے صاف ثابت ہے کہ باوجود ایک چیز کو وہ ناجائز اور جھوٹی خیال کرنے کے بھی اپنے مطلب کی وجہ سے ظاہر نہیں کرتے۔ پس یہی حال ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کے متعلق مرزاقادیانی کا تھا۔ جو ہم اوپر درج کر چکے ہیں۔
انعامی کھلا چیلنج
ہم تمام مرزائی افراد اور بالخصوص خلیفۂ قادیان اور ان کے دفتری صلاح کاران کو کھلا چیلنج کرتے ہیں کہ ’’اخبار الفضل‘‘ مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۳۶ء میں میرے متعلق مندرجہ عبارت کا ایک لفظ بھی صحیح ثابت کر دیں۔ جس کا یہ مطلب ہو کہ اس وجہ سے میں نے جماعت قادیانیہ کو ترک