کے یار نہیں۔ بوقت ضرورت اس حکومت پر بھی چھاپہ مارنے سے باز نہیں رہیں گے۔ چنانچہ آج کل نیشنل لیگیں بنانا۔ صاف ظاہر کرتا ہے کہ اب عنقریب یہ اپنا سیاسی ہونا ظاہر کر دیں گے۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’ہم پر اور ہماری ذریت پر یہ فرض ہوگیا کہ اس مبارک گورنمنٹ برطانیہ کے ہمیشہ شکر گذار رہیں۔ انگریزی سلطنت میں تین گاؤں تعلق داری اور ملکیت قادیان کا حصہ جدی والد صاحب مرحوم کو ملے۔ جواب تک ہے اور حراث کے لفظ کے مصداق کے لئے کافی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۱۳۳، خزائن ج۳ ص۱۶۶)
اب ہم موجودہ خلیفہ صاحب کی نیشنل لیگیں بنانے پر ان کو پوچھتے ہیں کہ آپ کو تو آپ کے ابا جان حکومت کی شکر گزاری کی وصیت کر گئے تھے۔ اب یہ سیاسی انجمن بنا کر گورنمنٹ کی مخالفت پر کمر بستہ ہونا اور جگہ جگہ پریس قائم کر کے حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کی ٹھاننا اور اس کے لئے ایک مستقل فنڈ جس فنڈ کا نام پروپیگنڈا فنڈ ہے۔ ہمارے فنڈ کی تصدیق نہیں کرتا۔ جس وقت جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لئے نیا عقیدہ گھڑ لیا جاتا ہے۔ پھر مرزاقادیانی اس لئے گورنمنٹ کے شکر گزار ہوتے ہیں کہ گورنمنٹ نے ان کے والد صاحب کو تین گاؤں اور قادیان کی ملکیت کا حصہ عطاء فرمایا تھا۔ اب کہاں ہیں وہ خلیفہ صاحب جو کہا کرتے ہیں کہ گورنمنٹ کا بال بال ہمارے احسانوں کے نیچے دبا ہوا ہے اور ہم نے آج تک ایک کوڑی اس کے بدلے میں نہیں لی۔
اور کہاں ہے وہ مرزاقادیانی جو کہتے تھے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو گورنمنٹ نے زمین دی ہے تو خوشی کی بات نہیں۔ زمین تو ذلت اور لعنت ہوتی ہے۔
یہاں انہوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ وہ لعنت اور ذلت پہلے مرزاقادیانی اور مرزاقادیانی کے والد کو گورنمنٹ کی طرف سے حاصل ہوئی۔ کاش کہ مرزاقادیانی اس کو واپس کردیتے یا اپنی اولاد کو کہہ جاتے کہ جائیداد واپس کر دو۔ یہ تو لعنت ہے اور یونہی گورنمنٹ کے شکرگزار رہتے۔ مزا تو جب تھا۔ الغرض مرزاقادیانی کی نیرنگیاں کیا کیا بیان کریں ؎
گاہ زاہد، گاہ صوفی، گاہ قلندرمی شود
رنگہائے مختلف دارد بت عیارما
اختلاف نمبر۱۴: مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’ڈاکٹر عبدالحکیم نے جو تفسیر لکھی ہے۔ نہایت عمدہ ہے۔ شیریں بیان ہے۔ نکات قرآنی خوب بیان کئے ہیں۔ دل سے نکلی اور دلوں پر اثر کرنے والی