صاحب شریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کے رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)
اختلاف نمبر:۱۳
پھر لکھتے ہیں: ’’اگر مجھے گالیاں دی جاتی ہیں تو کیا یہ نئی بات ہے۔ کیا اس سے پہلے خدا کے پاس نبیوں کو ایسا نہیں کہاگیا۔ اگر مجھ پر بہتان لگائے جاتے ہیں تو کیا اس سے پہلے خدا کے رسولوں، راست بازوں پر الزام نہیں لگائے گئے۔ غرض مخالفوں کا کوئی بھی میرے پر ایسا اعتراض نہیں جو مجھ سے پہلے خدا کے پاک نبیوں پر نہیں کیاگیا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۳۸۷، خزائن ج۱۵ ص۵۱۴)
پھر لکھتے ہیں کہ: ’’ماسوائے اس کے جو شخص ایک نبی متبوع علیہ السلام کا متبع ہے اور اس کے نبیوں پر اور کتاب اﷲ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا ایک قسم کی ناسمجھی ہے۔ کیونکہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ تاایک دین سے دوسرے دین میں داخل کریں اور ایک قبلہ سے دوسرا قبلہ مقرر کر دیں اور بعض احکام کو منسوخ کریں اور بعض نئے احکام لاویں۔ لیکن اس جگہ تو ایسے انقلاب کا دعویٰ ہی نہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۳۹، خزائن ج۵ ص۳۳۹)
ناظرین کرام! دیکھئے ایک جگہ تو مرزاقادیانی اپنی سچائی کو انبیاء کی سچائی پر آزمانا بتلاتے ہیں اور دوسری عبارت میں اس کے بالکل برخلاف لکھتے ہیں۔ مرزاقادیانی کی اختلاف بیانیوں کی کوئی حد نہیں۔ ہم انشاء اﷲ اس مضمون پر کسی دوسری جگہ مفصل بحث کریں گے۔ عبارت مندرجہ بالا میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ میں نے تو کوئی حکم شریعت کا منسوخ نہیں کیا۔ حالانکہ جہاد کا حکم مرزاقادیانی نے منسوخ کیا۔ بالکل ردی قرار دے دیا ہے۔ اسی وجہ سے کابل میں مرزائی سنگسار کئے گئے تھے کہ یہ فتنہ وہ کابل میں بھی پیدا کرنا چاہتے تھے کہ جہاد چھوڑ دو۔ مگر کابلی دنیا میں جہاد چھوڑنا سلطنت کو ہاتھ سے دینا ہے اور مرزائی لوگوں کا مطلب بھی یہی تھا کہ چونکہ صاحب اور خلیفہ صاحب نے انگریز حکومت وہاں قائم کرانے کے لئے اپنے آدمیوں کے ذریعہ وہاں تحریک شروع کرائی۔ تاکہ حکومت برطانیہ کو یہ کارنامہ دکھلا کر خراج تحسین حاصل کریں۔ لیکن اس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تحریک حکومت برطانیہ کی منشاء سے نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ انگریز حکومت نے اپنے انصاف کے لحاظ سے اس وقت اپنے ساتھ کسی کو نہیں چلنے دیتی تھی۔ یہ مرزاقادیانی کا اپنا فرض تھا۔ جس کو ادا کرنے کے لئے انہوں نے یہ کام شروع کرایا تھا۔ گورنمنٹ برطانیہ اب ایسے فتنوں سے پاک ہے اور قادیانیوں کی اس پالیسی کو سمجھ چکی ہے کہ وہ کسی