دفن کیوں نہیں ہوسکتا۔ شرط تو یہ ہے کہ نابالغ نہ ہو اور اس میں یہ شرط لگانا کہ وہ خود الوصیت کے قوانین پر عمل کرے تو دفن ہوسکتا ہے۔ کیا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مرزاقادیانی اور ان کے پسماندگان کا مطلب صرف زرطلبی ہے اور کچھ نہیں۔ کسی کے بہشتی غیر بہشتی ہونے کا ان کو کوئی دریغ نہیں ہے۔ غالب کی روح بھی اس بیان سے تڑپ کر کہتی ہے ؎
خوب ہم سمجھتے ہیں جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے پھر لکھتے ہیں کہ: ’’میری اور میرے اہل وعیال کی نسبت خدا نے استثناء رکھا ہے۔‘‘
(ضمیمہ الوصیت ص۲۹، خزائن ج۲۰ ص۳۲۷)
ہم حیران ہیں کہ وہ کون سا الہام ہے۔ جس کی مرزاقادیانی تشریح فرماتے ہیں۔ ہمیں وہ الہام تو کسی کتاب میں دکھایا جاوے۔ پھر اگر وہ دکھادیں تو ہمارا اعتراض ہے کہ مرزاقادیانی کے اہل وعیال اگر مستثناء ہیں تو پھر بعض نے ان میں سے وصیت کر بھی دی ہوئی ہے۔ کیا وہ خدا کے حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ٹھہرتے۔
ہم خلیفہ صاحب اور ان کی ذریت روحانیہ سے پوچھتے ہیں کہ جب آپ لوگ سفر اور تقاریر وغیرہ میں روزہ نہیں رکھتے تو اس پر اگر اعتراض ہو تو کہہ دیتے ہو کہ اگر ہم سفر میں روزہ رکھیں تو خدا کے حکم کی نافرمانی ہوتی ہے۔ حالانکہ وہ روزہ رکھنا نہ رکھنا ایک رخصتی معاملہ ہے اور یہاں استثناء یقینی ہے تو یہاں خود خلیفہ صاحب نے جو دکھاوے کی وصیت کر رکھی ہے۔ اس میں خدا کے حکم کی نافرمانی لازم نہیں آتی۔ مگر اس کا جواب یوں دیا کرتے ہیں کہ چونکہ خداتعالیٰ نے ہمیں شرائط وصیت سے مستثناء رکھا ہے۔ اس لئے اس کے شکریہ کے طور پر وصیت کر دیتے ہیں۔ ہمیں ان کے اس جواب پر دو اعتراض ہیں۔ ایک یہ کہ روپیہ ان کی کمائی سے نہیں آتا۔ بلکہ مریدوں کے نذرانوں سے اور بیت المال کے خزانہ سے جتنا چاہیں خرچ کر لیں۔ ایسے شکریہ تو سارے ادا کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی خوبی کی بات نہیں یہ تو ایک لائن بنانے کے لئے فرض وصیت کر رکھی ہے۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر شکریہ کے طور پر وصیت کی ہے تو روزہ شکریہ کے طور پر کیوں نہیں رکھ لیا کرتے۔ ’’میٹھا میٹھا ہڑپ اور کڑوا کڑوا تھو‘‘
اختلاف نمبر:۳
مرزاقادیانی یہ لکھتے ہیں کہ: ’’چونکہ شرعاً یہ امر ممنوع ہے کہ طاعون زدہ لوگ ایسے دیہات کو چھوڑ کر ایسی جگہ جائیں۔ اس لئے میں اپنی جماعت کے تمام لوگوں کو جو طاعون زدہ