مقام نبوت سے شدید مشابہت رکھتا اور سوائے قوت وفعل کے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن ان لوگوں نے میرے قول کو نہیں سمجھا اور یہی کہا کہ یہ شخص نبوت کا مدعی ہے اور اﷲ جانتا ہے کہ ان کا یہ قول صریح کذب ہے اور اس میں ذرہ بھر سچائی کی چاشنی نہیں اور نہ اس کا کوئی اصل ہے اور اس کو انہوں نے صرف اس لئے تراشا ہے کہ لوگوں کو تکفیر اور گالی اور لعنت طعن پر اکسائیں اور انہیں فساد اور عناد کے لئے اٹھائیں اور مومنوں میں تفریق کریں۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۸۱،۸۲، خزائن ج۷ ص۳۰۰)
پھر مرزاقادیانی کی سب سے آخری کتاب الوصیت جس میں وصیت کا مضمون ہے اور وصیت ہمیشہ آخری وقت ہی میں ہوتی ہے۔ چنانچہ خلیفہ صاحب قادیانی اس کتاب الوصیت کے متعلق میری تائید میں لکھتے ہیں۔ ’’چنانچہ آپ نے دسمبر ۱۹۰۵ء رسالہ الوصیت شائع کیا اور اس میں بوضاحت اس امر کو لکھ دیا کہ اب میں بہت جلد وفات پانے والا ہوں اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف جانا میرے لئے مقدر ہوچکا ہے۔ اس لئے میں اپنی وصیت کو شائع کرتا ہوں۔‘‘
(صادقوں کی روشنی ص۲)
اس آخری کتاب میں دیکھئے۔ مرزاقادیانی کیا لکھتے ہیں: ’’اس لئے اس نبوت پر تمام نبوتوں کا خاتمہ ہے اور ہونا چاہئے تھا۔ کیونکہ جس چیز کے لئے ایک آغاز ہے۔ اس کے لئے ایک انجام بھی ہے۔‘‘ (الوصیت ص۱۱، خزائن ج۲۰ ص۳۱۱)
مرزاقادیانی کا عقیدہ ہم اوپر نقل کر آئے ہیں کہ نبوت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوئی اور آنحضرتﷺ پر ختم ہوگئی۔ اب غور کا مقام ہے کہ آدم صفی اﷲ تشریعی نبی نہ تھے۔ جب مرزاقادیانی نے یہ لکھا کہ آدم کی نبوت اور محمد رسول اﷲ کی نبوت ہر دو منقطع ہوگئی تو اس کا صاف مطلب ہے کہ نبوت تشریعی وغیرتشریعی ہر دو قسم کی نبوت ختم ہے۔ اب کوئی نبی نہیں آسکتا۔ جو شخص اب نبوت کا دعویٰ کرے وہ بقول مرزاقادیانی کافر ہے۔ کاذب لعنتی ہے۔ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ قرآن پر اس کا ایمان نہیں اور فساد کی غرض سے مفسدانہ چالیں چلتا ہے۔ الیٰ اخرہ!
اب اس کے بعد شاید قادیانی دوست مرزاقادیانی یا خلیفۂ قادیانی کا کوئی عقیدہ یا تشریح دوبارہ ثبوت پیش کر کے کج بحثی کا میدان نہ بنا سکیں گے۔
ناظرین کرام! ہمارا مدعا اس جگہ مرزاقادیانی پر اپنی طرف سے اسلامی دلائل پیش کر کے ان کو ملزم گرداننا نہیں۔ بلکہ ان کی ہی تحریرات کا ان کی دوسری تحریرات سے مقابلہ کر کے ’’لوکان من عند غیر اﷲ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً‘‘ کی صداقت کو ظاہر کرنا ہے