اکابر غیرمبایعین کا عقیدۂ نبوت ۱۹۱۴ء تک سب مسیح موعود کو نبی مانتے تھے
’’ہم ذیل میں فریق لاہور کے اکابر کے وہ حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔ جن سے روزروشن کی طرح ثابت ہے کہ یہ سب خلافت ثانیہ سے اپنی علیحدگی یعنی ۱۹۱۴ء تک سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پر اسی طرح اعتقاد رکھتے تھے جس طرح جماعت احمدیہ رکھتی ہے۔‘‘
(ایڈیٹر: الفرقان ربوہ)
۱… مولوی محمد علی نے تحریر کیا: ’’ہمارے نبیﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی، خواہ وہ پرانا نبی ہو یا نیا، ایسا نہیں آسکتا کہ اس کو بدوں وساطت آنحضرتﷺ کے نبوت ملی ہو۔‘‘
(الحکم مورخہ۱۰؍مارچ ۱۹۰۶ئ)۲… مولوی محمد علی نے آیت ’’ومن یطع اﷲ والرسول‘‘ کے متعلق بیان کیا کہ: ’’دو مخالف خواہ کوئی ہی معنے کرے۔ مگر ہم تو اسی پر قائم ہیں کہ خدا نبی پیدا کر سکتا ہے۔ صدیق بناسکتا ہے اور شہید اور صالح کا مرتبہ عطا کر سکتا ہے۔ مگر چاہئے مانگنے والا… ہم نے جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا وہ صادق تھا۔ خدا کا برگزیدہ اور مقدس رسول تھا۔ پاکیزگی کی روح اس میں کمال تک پہنچی ہوئی تھی۔‘‘ (الحکم مورخہ ۱۸؍جولائی ۱۹۰۸ئ)
۳… مولوی کرم الدین آف بھیں کے مقدمہ میں بطور گواہ مولوی محمد علی نے حلفاً کہا ہے: ’’مکذب مدعی نبوت کذاب ہوتا ہے۔ مرزاقادیانی ملزم مدعی نبوت ہے۔ اس کے مرید اس کو دعویٰ میں سچا اور دشمن جھوٹا سمجھتے ہیں۔ پیغمبر اسلام مسلمانوں کے نزدیک سچے نبی ہیں اور عیسائیوں کے نزدیک جھوٹے ہیں۔‘‘
۴… اسی مقدمہ میں مورخہ۱۶؍جون ۱۹۰۴ء کو مولوی محمد علی نے بجواب مستغیث مسیح موعود کی موجودگی میں حلفاً بیان دیا کہ: ’’مرزاقادیانی دعویٰ نبوت کا اپنی تصانیف میں کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ نبوت اس قسم کا ہے کہ میں نبی ہوں۔ لیکن کوئی نبی شریعت نہیں لایا۔ ایسے مدعی کا مکذب قرآن شریف کی رو سے کذاب ہے۔‘‘ (مسل۱؎ ورق نمبر۳۶۲)
۱؎ اس مقدمہ کی مسل کے حوالہ جات پہلی مرتبہ ۱۹۳۷ء میں تحریری مباحثہ راولپنڈی کے موقع پر پیش ہوئے تھے۔ یہ مسل گورداسپور میں قیام پاکستان تک محفوظ تھی۔ مورخہ ۶؍جولائی ۱۹۴۲ء کو میں نے باضابطہ اس کا معائنہ کر کے رسالہ فرقان قادیان بابت ماہ جولائی ۱۹۴۲ء میں اس مسل کے جملہ حوالہ جات درج کر دئیے تھے۔ فرقان کا یہ نمبر عدالتی بیان نمبر کے نام سے شائع ہوا تھا اور قابل مطالعہ دستاویز ہے۔ (ابوالعطائ)