ہے کہ مرزاقادیانی کا مطلب مسیح کو مارنا ہی نہیں بلکہ اپنا دعویٰ منوانا ہے۔ اگر کوئی مرزاقادیانی کو نہ مانے تو پھر خواہ وہ مسیح کو زندہ مانے یا مردہ مرزاقادیانی کے نزدیک یکساں ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ: ’’میرا یہ دعویٰ نہیں کہ دمشق میں کوئی مثیل مسیح پیدا نہیں ہوگا۔ ممکن ہے کہ کسی آئندہ زمانہ میں خاص کر دمشق میں بھی کوئی مثیل مسیح پیدا ہو جاوے۔ میں نے صرف مثیل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ صرف مثیل ہونا میرے پر ہی ختم ہوگیا ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار مثیل مسیح آجائیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۹۹، خزائن ج۳ ص۱۹۷)
ناظرین کرام پر ہمارے خیالات کی صداقت ظاہر ہوچکی ہوگی۔ لیکن شائقین تحقیق کے لئے ہم اور ایک عبارت جو حیات مسیح میں اس سے بھی زیادہ صریح لکھ کر اس فصل کو ختم کر دیتے ہیں۔ اگر ضرورت ہو تو مرزاقادیانی کی تردید میں ہم آئندہ مبسوط لٹریچر لکھنے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اس کی انتظار کریں۔
مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’ممکن اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ بھی صادق آسکیں۔ کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا درویشی اور غربت کے لباس میں آیا ہے اور جب کہ یہ حال ہے تو علماء کے لئے اشکال ہی کیا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی وقت ان کی یہ مراد بھی پوری ہو جائے۔
(ازالہ اوہام ص۱۹۹، ۲۰۰، خزائن ج۳ ص۱۹۷،۱۹۸)
ناظرین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمالیا ہے کہ مرزاقادیانی نے ہر موقع پر اس موقع کی بات اور عقیدہ ظاہر کیا ہے۔ ان کو اس بات کا کوئی خیال نہیں کہ دنیا کی نجات کس طرح ہوگی۔ ان کو تو جلب زر اور حصول منفعت کی دھن لگی ہوئی ہے۔ لکھتے ہیں ؎
اے میرے پیارے فدا ہو تجھ پہ ہر ذرہ میرا
پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۹، خزائن ج۲۱ ص۱۲۹)
اس شعر کے مضمون سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی اپنے آپ کو خود ماسوا من اﷲ خیال نہیں کرتے تھے۔ ورنہ کیا ضرورت کہ خدا کو کہتے۔پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار
جب کہ خدا نے ان کو ہدایت خلق کے لئے مامور کیا تھا کیا وہ خود دنیا کی توجہ اس طرف