اس کتاب میں مرزاقادیانی نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو اسی طرح زندہ آسمان پر تصور کیا اور اس کا اظہار کر دیا جس طرح کہ دوسرے مسلمانوں کا عقیدہ تھا۔ اس پر حضرت مولوی محمد حسین صاحب مرحوم بٹالوی پاک طینت عالم نے ایمانداری سے ’’ریویو‘‘ لکھا۔ کیونکہ خدا کسی انسان کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا اور انسان بھی اگر انسان کی نیکی کا اعتراف نہ کرے تو ’’من لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ‘‘ کی وعید سے گنہگار ٹھہرے۔ آج کل مرزائی حضرات مولانا موصوف مرحوم کے ریویو کو بطور سند پیش کر کے مرزاقادیانی کی سچائی ثابت کرنے کی بے سود کوشش کیا کرتے ہیں۔ حالانکہ جو چیز اس وقت اچھی تھی اس کو اچھی اور جو چیز بعد میں بری تھی اس کو بری مولانا موصوف مرحوم نے قرار دے کر ایمانداری کا ثبوت دیا تھا۔ لیکن مرزائی لوگ دوسری چیز کو جو مولانا نے ظاہر فرمائی پیش نہیں کرتے۔ ہم مرزاقادیانی کے دل آزار طریق عمل کو پیش کر کے اپنے ناظرین کی اور احساس طبائع کو منقبض کرنا نہیں چاہتے۔
صرف ’’براہین احمدیہ‘‘ کی تالیف کے زمانہ میں جو مرزاقادیانی کے عقائد تھے ان کو بعد کی تحریرات سے مقابلہ کر کے دکھلائیں گے۔ تاکہ معلوم ہو سکے کہ علماء وقت کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرزاقادیانی نے بعد میں کیا کیا اقدام کئے۔
اور پھر ان کے بعد ان کی پسماندہ جماعت اور موجودہ خلیفہ صاحب نے کیا کیا حاشیہ ارائیاں کر کے جلب زر کے طرق کو مضبوط کیا ہے۔ قرآن کریم میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ: ’’لوکان من عند غیر اﷲ لوجد وافیہ اختلافاً کثیراً‘‘ {اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں رنگارنگ کی باتیں ایک دوسری کے برخلاف پائی جاتیں۔}
اور مرزاقادیانی بھی لکھتے ہیں کہ: ’’جھوٹے کی کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔‘‘ پس ہم مرزاقادیانی کے دعاوی کو اس معیار پر پرکھنے کے لئے مجبور ہیں کہ درست ہیں یا نہیں۔ براہین احمدیہ میں مرزاقادیانی نے ایک آیت قرآنیہ لکھ کر حیات مسیح ناصری کو ثابت کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘ اس آیت میں جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبۂ دین کاملہ اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے۔ وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا۔ (براہین احمدیہ ص۴۹۸، خزائن ج۱ ص۵۹۳)