تاحال آنجناب کی توجہ اس بوقلموں طرق کی طرف کماحقہ مبذول نہیں ہوئی تھی کہ یہ مختلف رنگ مسیح کی وفات ثابت کرنے سے پیدا ہوں گے ور نہ حضرت مسیح کی حیات کا ذکر تک نہ کرتے۔ اس کے بعد جب کتاب براہین احمدیہ چھپ کر علماء سے ریویو حاصل کر چکی تو مرزاقادیانی کو خیال پیدا ہوا کہ علماء ملت بالکل بھولے مسلمان ہیں اور انہوں نے اس کتاب کو نظر تحسین سے قبول فرمالیا ہے۔ اگر میں کوئی اور اقدام کر کے آگے بڑھوں تو بھی علماء زمانہ برداشت کر لیں گے اور خوب مزے کی گذرے گی۔
اس خیال نفسانی نے مرزاقادیانی کو آئندہ دعاوی کی جرأت پر آمادہ کردیا اور انہوں نے جدت طرازی کی شان میں دعوے گھڑنے شروع کر دئیے اور پھر کیا تھا شب وروز بے چینی میں گذرنے لگے اور زبان دل سے ہر وقت یہ جاری ہوا کہ ؎
پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار
اور روپیہ اکٹھا کرنے کی دھن سوار سر بن گئی۔ جیسا کہ ہم اصل موقع پر درج کریں گے۔ بااﷲ التوفیق!
اس کے بعد مرزاقادیانی ۱۸۹۱ء تک تین کتابیں یعنی ’’توضیح المرام، فتح اسلام اور ازالہ اوہام‘‘ تالیف کیں۔ اس وقت مرزاقادیانی رسالہ ’’فتح اسلام‘‘ میں لکھتے ہیں ؎کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے
جس کی مماثلت کو خدا نے بنا دیا
حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب
خوباں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا
(فتح اسلام ٹائٹل، خزائن ج۳ ص۱)
یعنی مجھے مسیح ماننے میں اے لوگو تمہیں کیا شک ہے۔ جب کہ تم حکیم اجمل خاں صاحب کو مسیح الملک اور معشوقوں کو بھی مسیحا کے الفاظ سے پکار لیتے ہو۔ غرض کسی طرح مجھے مسیحا مان لو۔ اس پر اعتراض ہونے لگے کہ مسیح تو آسمان پر ہے۔ مرزاقادیانی مسیح کس طرح ہوسکتے ہیں؟ تو اس کے بعد مرزاقادیانی نے حضرت مسیح ناصری کو وفات یافتہ قرار دینا شروع کر دیا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ؎
ابن مریم مر گیا حق کی قسم
داخل جنت ہوا وہ محترم
مارتا ہے اس کو فرقاں سر بسر
اس کے مر جانے کی دیتا ہے خبر