ان رنگارنگ اور بوقلموں اور سیاہ کاریوں کا جس قدر ذکر کرنا ہے جس کو انہوں نے سادہ مزاج بھولے بھالے مسلمانوں سے جلب زر اور حصول منفعت کا ذریعہ محض بنا رکھا ہے۔
مرزاقادیانی کی دعاوی خواہ کچھ بھی ہوں۔ ہمیں ان پر بجز اس صورت کے بحث کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ ان کے دعاوی کو من مانے رنگ دے کر موجودہ گدی نشینان قادیاں کس طرح دنیا لوٹ رہے ہیں۔ تاریخ اسلام اور اصول مذہبیہ کی واقفیت رکھنے والے احباب سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد ان کی جماعتیں اور ان کے خلفاء محض ان کے مقاصد کی پیروی کرانے کے لئے قائم ہوتے ہیں۔ لیکن ہم ثابت کریں گے کہ مرزاقادیانی کے پس ماندگان نے مرزاقادیانی کے بیان کردہ مقاصد کو بھی (خواہ نیک تھے یا بد) چھوڑ کر اور کم وبیش کر کے بھی جو مقصد نکل سکا جرأت سے نکال لیا۔ جس سے حصول منفعت میں کسر نہ آنے دینا انہیں مدنظر رہا۔ ان کے حالات کو مفصل ایک جلد میں لکھ دینا حیطۂ امکان سے باہر ہے۔ لیکن مختصراً مناسب مقامات پر ہم اپنے مدعاء اہتمام کو ثابت کرنے کی حتی الوسع کوشش کئے بغیر نہیں رہیں گے۔ سچ ہے کہ ؎
خشت اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا مے رود دیوار کج
اگر مرزاقادیانی کا کوئی مقصد خداترسی اور راست بازی کے ماتحت مخلوق خدا کی بہبودی کے سامان مہیا کرتا ہوتا تو خداتعالیٰ ان کی نیکی کو پس ماندہ لوگوں کے ہاتھوں ضائع نہ ہونے دیتا۔ مگر واقعات اور نتائج سے ثابت ہوا ہے کہ مرزاقادیانی نے جس نیت سے یہ بیج بویا تھا۔ وہ نیت بار آور ہونے والی نہ تھی اور نہ ہوگی۔
ہم آئندہ صفحات پر اپنے ناظرین کی ضیافت طبع کے لئے مرزاقادیانی کے دعاوی کی نیرنگیاں پیش کریں گے۔ جس سے ہمارے بیان کردہ دعویٰ کی پوری تصدیق ہو جاوے گی۔ بااﷲ التوفیق!
چنانچہ مرزاقادیانی نے اپنی سب سے پہلی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ جو ۱۸۸۴ء میں طبع ہوئی۔ اس میں مرزاقادیانی نے اگرچہ علماء زمانہ کی مومنانہ سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چالاکی آمیز باتیں کر کے اپنے لئے آئندہ دعاوی کاپینترا بنانے کی بنیاد تو رکھ دی تھی۔ مگر بعض ایسی باتیں بھی اس تالیف میں تکلف کے ساتھ لکھ دی تھیں۔ جنہوں نے علماء زمانہ کی توجہ کو مرزاقادیانی کی ان باریک چالاکیوں کی طرف بجاطور پر نہ جانے دیا۔