میں نے اپنے وقت کو مندرجہ ذیل حصوں پر تقسیم کر رکھا تھا۔ بعد از نماز صبح وفراغت حاجات ضروریہ کے دوکان پر محنت کشی کے لئے عصر کی نماز تک رہتا، اور پھر اس کے بعد مغرب تک کسی ایک شخص کو خود جاکر تبلیغ کرتا۔ بعد نماز مغرب بعض دوستوں سے ملاقات کرتا اور اس کے بعد پھر نماز عشاء ڈاک نویسی کا فریضہ ادا کرتا۔
اسی طرح خرچ کو بھی تقسیم کر رکھا تھا کہ ہر آمد کے تین حصص ہوتے تھے۔ ایک گھر کے اخراجات پر اور دوسرے دو تبلیغ ڈاک چندہ عام خاص اور مہمانوں وغیرہ کے اخراجات پر۔ اس امر کی باریک کیفیتوں کو بھی بیان کرنا دل ہلا دینے والی حرکت ہوگی۔
سفر کی حالت اس سے مستثناء ہے۔ میرے ساتھ میرے چھوٹے بھائی محمد عبدالرحیم طبیب حاذق بھی اس تیر اندازی زہد خشک کے شکار ہوتے رہے، اور گھر کے باقی تمام افراد بھی اسی طرح۔ میں اس بات کے ظاہر کر لینے میں بھی خدا کے فضل سے فخر کناں ہوں کہ مجھے اس رحمن ورحیم خدا نے رؤیا صالحہ اور کشوف والہامات کی چاشنی سے محروم نہیں رکھا ہوا تھا۔ مگر اس جماعت میں داخل ہونے سے میری قلبی کیفیت کبھی منتشر ہوئے بغیر نہیں رہتی تھی۔ وہ لذت جو جنگل کی خاردار جھاڑیوں کی صحبت میں روح کو نصیب ہوتی تھی۔ اس جماعت کے مقتدر کارکن اور خلیفۂ قوم کے مقرب ہوکر بھی نہ دیکھی۔ آخر بعض رؤیا کی بناء پر پھر وہی بادیہ پیمائی کا رویہ اختیار کر لیا۔ میری بعض خوابوں پر ہمارے اس وقت کے پیر مغاں جناب خلیفہ صاحب قادیان بھر میں فخر کیا کرتے تھے، اور خدا کا فضل تھا کہ میرا رؤیا سچ ہوتا تھا۔ لیکن مجھے نہایت افسوس کے ساتھ ذکر کرنا ہے کہ ہمارے ہادی پوپ کی آج تک کوئی خواب پوری نہیں ہوئی۔ سوائے ایک خواب کے جس میں آپ نے دیکھا تھا کہ بخاری آپ کا ازاربند کھول رہا ہے۔ دو تین دفعہ بخاری نے ازاربند کھولا۔ مگر حضرت والا نے پاجامہ نہ اترنے دیا۔ ’’الفضل‘‘ میں یہ رؤیا شائع ہوچکا جو اس وقت بھی میرے سامنے موجود ہے۔ چنانچہ حضور والا کا یہ رؤیا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے مقدمہ گورداسپور میں پیش ہونے سے کچھ پورا ہوا تھا اور میں نے اس وقت بھی آنجناب کو گورداسپور میں عرض کیا تھا کہ حضور آپ نے اس ازاربند بخاری کے کھولنے والے رؤیا کی جو تعبیر اخبار الفضل میں لکھوائی تھی کہ وہ میرا پردہ پھاڑے گا۔ وہ تقریباً پوری ہوچکی ہے اور یہ حضور کی پہلی ہی خواب ہے۔ جو میں نے پوری ہوتی دیکھی ہے۔ خیر بہرحال خدا قادر وقیوم اور رحیم وکریم نے اپنی صفت رحمانیت کے ماتحت ہماری دستگیری کرتے ہوئے خود بخود ایسے سامان پیدا کر دئیے اور خلیفہ قادیان نے ایسی سکیمیں بنائیں جن میں ہمیں بھی شامل کیاگیا۔ لیکن جب اس کی تہ کو ہم نے دیکھا تو وہ سراسر تعلیم